ادھوری چاہت
تحریر: ماہرجی
زبیر نے آفس واپسی پر جیسے ہی اپنے گھر کی گھنٹی بجانے
کے لئے گھنٹی کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اندر سے اپنی بیٹی کی آواز سن کر اس کا ہاتھ
اٹھے کا اٹھا رہ گیا
-
"امی میں شادی کروں گی تو صرف فرحان سے ، ورنہ میں
زہر کھا کر اپنی جان دے دوں گی "
یہ الفاظ نہ تھے بلکہ زبیر کی سماعت پر ایک تازیانہ تھے جس سے اس
کے حواس اس کا ساتھ چھوڑ گئے اور وہ لڑکھڑا کر گرنے ہی والا تھا کہ گھنٹی کی طرف
اٹھا ہوا اس کا ہاتھ دیوار سے ٹکرا گیا اور دیوار اس کے لئے سہارا بن گئی اور اسی
اثنا میں اس کے حواس واپس آ گئے اور وہ گرنے سے بچ گیا -
" بیٹی تمہارے ابو نہیں مانے گے ، ہم رشتہ داروں کو
کیا منہ دکھائیں گے کہ ہماری بیٹی نے اپنی پسند کی شادی محلے کے ایک لڑکے سے کر لی
، اور وہ لڑکا بھی غیر برادری کا ، بیٹی تم ہماری عزت سے نہ کھیلو ، شادی کا فیصلہ
اپنے ابو پر چھوڑ دو
"
"امی میں شادی کروں گی تو بس فرحان سے - آپ ابو کو
سمجھائیں ، میں فرحان سے شادی کر رہی ہوں اس کے ساتھ بھاگ نہیں رہی کہ جس سے ہماری
بدنامی ہو گئی ،
شمائلہ اپنی امی سے یہ کہتے ہوئے اندر کمرے میں چلی گئی
اور اندر گھر میں خاموشی چھا گئی -
کچھ دیر بعد زبیر گھر میں داخل ہوا تو اس کے ذہن میں
شمائلہ کے بچپن سے لے کر جوانی تک کے واقعات چل رہے تھے ، بچپن سے لے کر جوانی تک
شمائلہ بہت ہی فرمانبردار اور تابعدار قسم کی بچی تھی اور وہ اپنی بیٹی کی اچھی
تربیت پر ایک طرح کا فخر کیا کرتا تھا لیکن آج اک ہی جھٹکے میں اس کا سارا
فخروغرور خاک میں مل گیا تھا اسے کچھ سمجھ نہ آ رہی تھی کہ اس سانحہ پر کیا ردعمل
دے -
رات کا کھانا بھی زبیر نے بےدلی سے کھایا ،اسکی بیوی نے
کئی بار زبیر سے اس کے اترے ہوئے چہرے کا پوچھا لیکن وہ ہر دفعہ ٹال گیا - ساری
رات سوچنے کے بعد زبیر نے نا چاہتے ہوئے بھی اسکی شادی فرحان سے کرنے کا فیصلہ کر
لیا ، ساری زندگی اس نے بیٹی کی کسی فرمائش کو رد نہیں کیا تھا تو اس نے یہ فرمائش
بھی پوری کرنے کا فیصلہ کر لیا چاہے خاندان کے لوگ اس پر ہنستے یا باتیں بناتے-
فرحان ایک خوبصورت اور اونچا لمبا جوان تھا ، بنیادی طور
پر وہ اک شرمیلا نوجوان تھا جس وجہ سے اس کی کوئی بھی گرل فرینڈ نہ تھی ، اس کمی
کو وہ کال گرلز سے پوری کر لیا کرتا تھا ،
اس کی سپرے اور کھاد کی دکان تھی ، وہ صبح سے شام تک
دکان پر ہوتا تھا - جب کبھی جنسی خواہشات زور پکڑتیں تو وہ کسی نہ کسی اڈے والی سے
رابطہ کرتا اور وہیں دکان پر اپنی جنسی ناآسودگی کی تکمیل کر لیتا ، اس نے دکان پر
ایک آرام کے لئے چھوٹا سا کمرا بنایا ہوا تھا وہی اس کا عشرت کدہ تھا -
دوپہر کا وقت تھا فرحان نے ایک آنٹی سے رابطہ کیا اور
کسی نئی کم عمر لڑکی کی ڈیمانڈ کی تو آنٹی / نائکہ نے اس کے پاس لڑکی بھیجنے کا
کہا اور اب فرحان لڑکی کے انتظار میں تھا -
تقریبا آدھے گھنٹے بعد کالج یونیفارم میں ایک اٹھارہ
انیس سالہ لڑکی اس کی دکان میں داخل ہوئی جیسے دیکھ کر فرحان کی آنکھوں میں چمک
اتر آئی - لڑکی نہ صرف خوبصورت تھی بلکہ بھرے ہوئے جسم کی مالک تھی ، چہرے سے یا
انداز سے کہیں سے بھی وہ کال گرل نہیں لگ رہی تھی ، فرحان کو ایسی ہی لڑکیاں پسند
تھیں ، وہ ابھی اس کا جائزہ ہی لے رہا تھا کہ وہ اس سے مخاطب ہوئی کہ
"مجھے فرحان صاحب سے ملنا ہے ، مجھے فائزہ آنٹی نے
بھیجا ہے ، "
جی میں ہی فرحان ہوں آپ سامنے کمرے میں چلیں ، فرحان یہ
کہتا ہوا اس کے پیچھے کمرے میں داخل ھو گیا -
لڑکی
نے کمرے میں جاتے ہی اپنا پرس اور دوپٹا گلے سے نکال کر بیڈ پر رکھا اور پیچھے مڑی
تو فٹنگ والی قمیض میں اسکی تنی ہوئی بھاری چھاتیاں دیکھ کر فرحان کے من میں ھلچل
ہونے لگی ، یہ لڑکی اسکی زندگی میں آنے والی سب سے حسین ، کم عمر اور خوش شکل لڑکی
تھی - اس نے دل ہی دل میں فائزہ آنٹی کو شاباش دی اور لڑکی سے اس کا نام پوچھا ،
"میرا نام نینا ہے "، لڑکی نے جواب دیا -
"بہت خوبصورت ہیں آپ " فرحان نے نینا سے کہا
تو وہ شوخی سے بولی " وہ تو میں ہوں "
فرحان مسکراتے ہوئے اسکی طرف بڑھا اور اپنی بانہیں اس کے
گرد حمائل کرتے ہوئے اسے سینے سے لگا لیا - اسکی نرم و گداز چھاتیاں فرحان کے سینے
سے ٹکرائیں تو وہ سرور کی گہری وادی میں اتر گیا ، اس نے پرجوش ہو کر نینا کو زور
سے بھینچ لیا اور نیچے سے اسکے لن نے سر اٹھانا شروع کر دیا ، اک زوردار جپھی
ڈالنے کے بعد اس نے نینا کو خود سے علیحدہ کیا اور اپنے ہونٹ اس کے رسیلے ہونٹوں
سے ملا دئیے - نینا کے ہونٹ بہت ہی نرم و نازک تھے جنھیں فرحان نے دیوانگی سے چومنا
اور چوسنا شروع کر دیا ، نینا بھی اس کا ساتھ دینے لگی - فرحان نے ہونٹ چوسنے کے
ساتھ ساتھ اپنا ایک ہاتھ اسکی بڑی بڑی چھاتیوں پر رکھ دیا اور انھیں دبانے لگا ،
نینا کی چھاتیاں بالکل ربڑ کی مانند نرم تھیں ، فرحان نے جیسے ہی تھوڑے زور سے
نینا کے ممے دبائے تو اس نے فرحان کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے خود سے دور کرنے لگی تو
فرحان نے سوالیہ نگاہوں سے اسکی طرف دیکھا تو نینا نے کہا "کپڑوں پر شکنیں نہ
پڑ جائیں اسلئے پہلے میں اپنے کپڑے اتار لوں" ،
نینا نے بڑے ہی سیکسی انداز میں فرحان کی طرف دیکھا اور
اپنی قمیض اتار دی - فرحان کے سامنے اس کا بے داغ گورا جسم عریاں ہو گیا ، اسکی
چھاتیاں کالے رنگ کے برا میں قید تھیں ، گورے جسم پر کالا برا تو ویسے ہی ہر لڑکی
پر جچتا ہے لیکن نینا کے جسم پر قیامت ڈھا رہا تھا اوپر سے نینا کا نشیلی نظروں سے
دیکھنا فرحان کے تن من میں آگ لگا رہا تھا - فرحان نے بے اختیار ہو کر نینا کو بیڈ
پر گرایا اور اسے بے تحاشا چومنا شروع کر دیا - اسی بے اختیاری میں اسے پتا ہی
نہیں چلا کب اس نے اپنے کپڑے اتارے ،کب اس کی شلوار اور برا اتارے ، کب اپنے لن کو
اسکی پھدی کا راستہ دیکھایا اور کتنی دیر اسے چودا ، بس اسے یاد تھا کہ وہ لطف و
سرور کی اتھاہ گہرائیوں میں تیر رہا تھا اس میں کبھی ڈوب رہا تھا تو کبھی ابھر رہا
تھا جب اسکی یہ کفیت ختم ہوئی تو نینا اپنی شلوار پہن رہی تھی اور بہت ہی پرسکون
لگ رہی تھی ، وہ خود بیڈ پر ننگا لیٹا ہوا تھا ، اس نے اٹھ کر اپنے کپڑے بھی پہننا
شروع کر دئیے ، دونوں جب اپنے کپڑے پہن چکے تو فرحان نے نینا سے پوچھا
" کتنے پیسے دوں" ؟
"فرحان تمہارا والہانہ پن دیکھ کر تم سے پیسے لینے
کو دل نہیں کر رہا ، مجھے تمہاری دیوانگی بہت پسند آئی ہے ، ایسا والہانہ پن میں
نے پچھلے دو سالوں میں کسی میں نہیں دیکھا اور نہ ہی میں نے کوئی دوست بنایا ہے ،
تم مجھ سے دوستی کر لو اور جب تمہارا دل چاہے مجھے کال کر لیا کرو ، کیا مجھ سے
دوستی کرنا پسند کرو گئے" ؟
نینا نے فرحان سے کہا تو اس نے جلدی سے ہاں میں سر ہلا
دیا کیونکہ اسکی بھی کوئی دوست نہیں تھی اور نینا تو بہت خوبصورت لڑکی تھی - نینا
اور فرحان کی پہلی ملاقات سیکس کے ساتھ ساتھ دوستی میں بدل گئی ،
شام
میں گھر جا کر فرحان جب نہا رہا تھا تو بار بار اس کے ذہن میں ایک ہی بات آ رہی
تھی کہ ایک کال گرل میں اتنا مزا ہے تو بیوی میں کتنا مزا ہو گا -
لہذا اس کا دل شادی کے لئے للچانے لگا -
اپنی اس خواہش کا اظہار اس نے اپنی ماں سے کیا اور لڑکی
تلاش کرنے کا کہا ، ساتھ ہی اسکی بہن روبی بیٹھی ہوئی تھی اس نے کہا "لڑکی
تلاش کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپکے لئے میں نے لڑکی پہلے سے ہی ڈھونڈ رکھی ہے"-
"کون ہے وہ لڑکی" ؟ فرحان نے پوچھا
تو اسکی بہن نے کہا "میری سہیلی شمائلہ "
روبی اور شمائلہ دونوں ایک ہی محلے میں رہتی تھیں اور
دونوں بہت اچھی دوست تھیں ، ایک دوسرے کے گھر آتی جاتی رہتی تھیں ، شمائلہ کی
عادات و اطوار بہت اچھی تھیں اور اس کے امی ابو بھی خوش اخلاق اور پڑھے لکھے تھے
شمائلہ کی فیملی کا شمار محلے کے اچھے لوگوں میں ہوتا تھا - روبی خود بھی شمائلہ
سے اچھی طرح واقف تھی اور ان کے خاندان میں فرحان کی کوئی ہم عمر لڑکی بھی نہ تھی
جس سے فرحان کی شادی کروائی جا سکے ، اسلئے روبی شمائلہ کو اپنی بھابی بنانا چاہتی
تھی -
فرحان نے شمائلہ کو اپنے گھر میں کافی دفعہ دیکھا تھا
لیکن اپنی شرمیلی طبعیت کی وجہ سے کبھی غور سے دیکھا یا بلایا نہیں تھا اور نہ ہی
شمائلہ کبھی فرحان سے مخاطب ہوئی تھی ، اب جبکہ اسکی بہن نے شمائلہ کا ذکر کیا تو
فرحان اس کا اپنے گھر میں منتظر تھا کہ وہ ان کے گھر آئے اور وہ اچھی طرح اس کا
جائزہ لے سکے -
یہ موقع اسے چند دنوں بعد ہی مل گیا ، جب وہ دکان سے گھر
واپس آیا تو روبی اور شمائلہ صحن میں چارپائی پر بیٹھی آپس میں باتیں کر رہی تھیں
، فرحان بھی ان کے پاس چلا گیا ، اس دن فرحان نے پہلی دفعہ شمائلہ کو نظر بھر کر
دیکھا ، شمائلہ ایک دبلی پتلی صاف رنگ کی لڑکی تھی اس کے نین نقش تیکھے اور دلکش
تھے ، پہلی نظر بتاتی تھی کہ شمائلہ ایک خوبصورت لڑکی ہے ،شمائلہ فرحان کو اچھی
لگی اور فرحان نے شمائلہ کو اپنی دلہن بنانے کا فیصلہ کر لیا -
روبی ایک تیز طرار لڑکی تھی ، اس نے شمائلہ کو سیدھی بات
بتانے کی بجائے اسے فرحان کی جانب مائل کرنے کی پلاننگ شروع کر دی اور باتوں ہی
باتوں میں اسے یہ باور کروانا شروع کر دیا کہ فرحان شمائلہ میں دلچسپی لیتا ہے ،
روبی کی باتوں سے شمائلہ بھی فرحان کی طرف توجہ دینے لگی
، اب فرحان اور شمائلہ کا جب آمنا سامنا ہوتا تو وہ ایکدوسرے کی طرف دیکھنے لگے
اور تھوڑا بہت مسکرانے بھی لگے ، دوسرے مرحلے میں روبی شمائلہ سے فرحان کی شمائلہ
سے محبت کا ذکر کرنے لگی اور اسے اپنی بھابی کہہ کر چھیڑنے لگی ، اب شمائلہ کے دل
میں بھی فرحان کی محبت جاگنے لگی اور اب جب آمنا سامنا ہوتا تو ان میں بات چیت بھی
ہونے لگی ، روبی جان بوجھ کر ان کو تنہائی فراہم کرنے لگی اور وہ بہانے بہانے سے
ادھر ادھر ہو جاتی ، اب شمائلہ اور فرحان کے درمیان پیار و محبت کے عہد و پیمان
ہونے لگے اور وہ دونوں ایکدوسرے کے پیار میں مکمل طور پر ڈوب گئے - یہ سب روبی کی
محنت کا نتیجہ تھا ، روبی نے شمائلہ سے شادی کا ذکر کیا تو اس نے اپنی امی سے بات
کی تو اسکی امی نے شادی سے منع کر دیا ، کچھ دن تو شمائلہ نے اپنی امی کو پیار سے
سمجھانے کی کوشش کی لیکن جب کسی طور شمائلہ کی امی نہ مانی تو اس نے اپنی امی کو
دھمکی دی کہ اگر اسکی شادی فرحان سے نہ ہوئی تو وہ زہر کھا کر خودکشی کر لے گئی ،
آفس واپسی پر شمائلہ کے ابو زبیر نے یہ دھمکی سن لی تھی -
شمائلہ کی امی نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن شمائلہ اپنی ضد
پر قائم رہی ، جب شمائلہ کی امی ہر طریقے سے سمجھانے کے باوجود بھی ناکام رہی تو
اس نے شمائلہ کے ابو سے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا -
ایک رات باتوں باتوں میں شمائلہ کی امی نے اسکے ابو سے
شمائلہ کی شادی کی بات کی تو شمائلہ کے ابو نے تو پہلے سے ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ
بیٹی کی اس ضد کو نا چاہتے ہوئے بھی پورا کرے گا چاہے خاندان میں لوگ باتیں بناتے
- شمائلہ کے امی ابو تھوڑی بہت بحث و مباحثہ کے بعد شمائلہ کی شادی فرحان سے کرنے
پر تیار ہو گئے تھے
-
چند مہینوں بعد ہی شمائلہ اور فرحان رشتہ ازدواج میں
منسلک ہو گئے اور آج فرحان اور شمائلہ کی سہاگ رات تھی -
فرحان جب کمرے کی کنڈی لگا کر سہاگ کی سیج پر آیا تو
شمائلہ گھونگھٹ نکالے سکڑی سمٹی سی بیٹھی تھی ، کمرے کی کنڈی لگنے کی آواز سن کر
شمائلہ کے جسم میں ایک سرسراہٹ دوڑ گئی اور آنے والے لمحات کا سوچ کر اس کا جسم
ہولے ہولے کانپنے لگا
-
فرحان آ کر شمائلہ کے سامنے بیٹھ گیا ، اندر سے وہ بھی
گھبرایا ہوا تھا ، لیکن وہ جانتا تھا کہ اس رات مرد کا پراعتماد ہونا ضروری ہے
اسلئے اس نے ہمت کرتے ہوئے شمائلہ کا گھونگھٹ اٹھایا ، شمائلہ ایک پرکشش چہرے کی
مالک تھی اوپر سے اس پر روپ بھی بہت آیا تھا فرحان کی اس کے چہرے پر نظر پڑی تو بے
ساختہ اس کے منہ سے ***** نکلا تو شمائلہ مزید شرما گئی اور اس کے گال مزید سرخ ہو
گئے ، فرحان نے اسکے حسن کی تعریف کی اور منہ دکھائی میں انگوٹھی پہنائی ، پہلے
پہل تو شمائلہ بول ہی نہیں رہی تھی لیکن فرحان نے آہستہ آہستہ اسکی جھجک کم کر دی
تو شمائلہ اسکی باتوں کا تھوڑا بہت جواب دینے لگی ،سیکس کی طرف پہلا قدم بڑھاتے
ہوئے فرحان نے باتوں باتوں میں اپنا ایک ہاتھ اسکی ران(thigh) پر رکھا اور آہستہ آہستہ اسکی
ران پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا جس پر شمائلہ کی سانسیں تیز ہو گئیں اور شمائلہ نے
فرحان کا ہاتھ ہٹانے کی کوشش کی ، فرحان نے مزید پیش قدمی کرتے ہوئے اپنے ہاتھ
اسکی گالوں پر رکھے اور اسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے اپنے ہونٹ شمائلہ کے ہونٹوں پر
رکھ دئیے اور اس کے ہونٹ چومنے لگا ، چند ہی سیکنڈز بعد شمائلہ کی سانس ایسے پھول
گیا جیسے وہ میلوں بھاگتی آئی ہو اور اس نے اپنے ہونٹ فرحان کے ہونٹوں سے علیحدہ
کئے اور تیز تیز سانسیں لینے لگی
فرحان
کا لن مکمل طور پر تن چکا تھا اور اس نے بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شمائلہ کے
کپڑے اتارنے چاہے تو شمائلہ نے پہلے لائٹ بند کرنے کا کہا تو فرحان نے اٹھ کر لائٹ
بند کر دی ، اب کمرے میں مکمل اندھیرا تھا ،شمائلہ نے لہنگا وغیرہ روبی کے کہنے پر
فرحان کے آنے سے پہلے ہی بدل لیا تھا اور وہ سرخ رنگ کی شلوار قمیض میں ملبوس تھی
، فرحان نے بیڈ پر جاتے ہی سب سے پہلے شمائلہ کے کپڑے اتارنے شروع کئے ، سب سے
پہلے فرحان نے شمائلہ کی قمیض اتاری اور اس کے مموں پر ہاتھ رکھ دیا ، شمائلہ تھی
تو دبلی پتلی لیکن اسکی چھاتیاں بہت جاندار تھیں ، فرحان نے شمائلہ کا برئیزیر
اوپر کیا اور اسکے مموں کو دبانے لگا ، شمائلہ کے چھوٹے چھوٹے نپلز بھی اکڑے ہوئے
تھے ، فرحان نے ایک دو منٹ شمائلہ کے نپلز پر ہاتھ ہوت پھیرا اور انہیں دبایا اور
پھر شمائلہ کا ایک مما منہ میں بھر کر چوسنے لگا ، فرحان کی کوشش تھی کہ شمائلہ کا
سارے کا سارا مما منہ میں بھر لے لیکن چھاتی بھاری ہونے کی وجہ سے ایسا نہ کر سکا
، شمائلہ پہلی بار لذت کی گہرائیوں میں ڈوب رہی تھی اور اس سے یہ مزا برداشت نہیں
ہو رہا تھا اور وہ مزے کی شدت سے اپنا سر ادھر ادھر پٹک رہی تھی ، فرحان نے جب اس
کے نپل کو چوسنا شروع کیا تو مزے کی شدت سے اسکا جسم اکڑنا شروع ہو گیا اور اونچی
اونچی سسکیوں سے اسکی پھدی نے پانی چھوڑ دیا ، شمائلہ سہاگ رات میں بن چدے فارغ ہو
چکی تھی
شمائلہ
کی سہاگ رات بھی عام دلہنوں کی طرح گزری ، مزا بھی تب آتا ہے جب لڑکی بھی بھرپور
ساتھ دے لیکن پہلی دفعہ کے ڈر کی وجہ سے عام طور پر لڑکی ساتھ نہیں دے پاتی ، ایک
رات میں فرحان نے دو دفعہ شمائلہ کے ساتھ سیکس کیا ، شمائلہ روایتی دلہنوں کی طرح
ڈری ہونے کی وجہ سے زیادہ لطف اندوز نہ ہو سکی ، درد زیادہ اور مزا کم تھا لیکن
اگلے کچھ ہی دنوں میں درد کم ہوتا گیا اور مزا بڑھتا گیا اور اب اسکی ہر رات لطف و
سرور میں گزرتی اور وہ فرحان کے ساتھ بھرپور سیکس انجوائے کرتی تھی،
پہلا ماہ بنا حمل ٹھہرے ویسے ہی گزر گیا لیکن فرحان اور
شمائلہ کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اسلئے انھوں نے حمل نہ ٹھہرنے کی کوئی ٹینشن نہ
لی ، تیسرے ماہ شمائلہ کا پاؤں بھاری ہو گیا ، فرحان کو جب پتا چلا کہ شمائلہ امید
سے ھے تو اس نے شمائلہ کا پہلے سے بھی زیادہ خیال رکھنا شروع کر دیا ،
شمائلہ بہت خوش تھی کہ اسے پیار کرنے والا شوہر ملا اور
اوپر والے نے اسے جلد ہی امید سے بھی کر دیا تھا - وہ خود کو ہر لحاظ سے خوش قسمت لڑکی
تصور کرتی تھی لیکن وہ نہیں جانتی تھی کہ "ماں باپ کا دل دکھا کر اگر خوشیاں
حاصل ہوں تو وہ ناپائیدار ہوتی ہیں
-"
نینا اور شمائلہ میں ایک فرق یہ بھی تھا کہ نینا ایک کال
گرل تھی جبکہ شمائلہ ایک عام گھریلو لڑکی ، نینا کے لئے چوپے لگانا اور گانڈ
مروانا ایک عام بات تھی لیکن شمائلہ ان چیزوں کو بہت برا سمجھتی تھی ، اسلئے فرحان
کو شمائلہ سے سیکس کرتے ہوئے ایک خلش محسوس ہوتی تھی دوسرے لفظوں میں ایک کمی کا
احساس ہوتا تھا جبکہ نینا کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوتا تھا اسلئے شادی کے بعد بھی فرحان
کا نینا سے رابطہ تھا اور کبھی کبھار وہ نینا سے ملتا بھی تھا ،
"آج مجھے اپنی امی کے گھر جانا ہے اور شام تک میں
واپس آ جاؤں گی " شمائلہ نے صبح صبح فرحان سے اجازت چاہی تو فرحان نے بخوشی
اسے میکے جانے کی اجازت دے دی ، فرحان جب دکان پر گیا تو اس نے سوچا دوپہر کو گھر
تو جانا نہیں کیوں نہ نینا کے ساتھ دوپہر کو رنگین بنایا جائے چنانچہ اس نے نینا
کو کال کی اور دوپہر میں آنے کا بولا تو نینا نے دوپہر میں آنے کی حامی بھر لی -
دوپہر جب نینا آئی تو خاص طور پر فرحان کے لئے بن سنور
کر آئی تھی اور وہ بہت پیاری لگ رہی تھی ، فرحان اسے آرام والے کمرے میں لے گیا
اور جاتے ہی اسکی شلوار قمیض اتارنے کے بعد اپنی شلوار قمیض بھی اتار دی ، وہ خود
الف ننگا تھا جبکہ نینا برئیزیر اور پینٹی میں تھی ، فرحان نے نینا کی پینٹی اور
برئیزیر بھی اتار دیا ، نینا کو اس نے بیڈ پر لٹایا اور خود اس کے اوپر آ گیا ،
فرحان کا لن پورے جوش کے ساتھ کھڑا تھا اور نینا کی پھدی کی گہرائی میں اترنے کے
لئے مکمل طور پر تیار تھا ، فرحان نے اپنا لن نینا کی پھدی کے سوراخ پر سیٹ کیا تو
نینا فرحان سے
"آج تو بہت جوش میں نظر آ رہے ہو" ؟
"تم سے ملاقات بہت دنوں بعد ہو رہی ہے اور اوپر سے
تم بہت پیاری لگ ہو ، اسلئے مجھ سے صبر نہیں ہو رہا "
یہ کہتے ہوئے فرحان نے آہستگی سے اپنا لن کا ٹوپا نینا
کی پھدی میں ڈال دیا ، نینا کی پھدی بالکل خشک تھی ، فرحان نے اپنا ٹوپا دو تین
دفعہ اندر باہر کیا اور آگے سے نینا کی چھاتی منہ میں لے کر اسکی نپل چومنے اور
چوسنے لگا ، جس سے نینا کی پھدی میں تھوڑا سا گیلا پن آنا شروع ہو گیا ، گیلا پن
محسوس کرتے ہی فرحان نے ایک زوردار جھٹکا مارا اور اسکا پورا لن نینا کی پھدی کی
گہرائیوں میں اتر گیا اور نینا کے منہ سے ایک ہلکی سی آہ نکلی
فرحان نے اپنے لن سے نینا کی پھدی میں دو تین پورے جھٹکے دئیے اور
پھر تیزی سے لن کو اندر باہر کرنا شروع کر دیا جس سے نینا کو بھی لطف آنے لگا جس
کا ثبوت اس کے منہ سے نکلنے والی سسکاریاں تھی ، نینا کے منہ سے لذت آمیز سسکاریاں
سن کر فرحان کی سپیڈ اور تیز ہو گئی ، نینا ایک کال گرل تھی وہ مردوں کی نفسیات سے
اچھی طرح واقف تھی وہ جانتی تھی کہ مرد کو ذہنی تسکین تب ہی حاصل ہوتی ہے جب اسکی
مردانگی کا اعتراف عورت کرے ، عورت کی چیخیں مرد کو ذہنی سکون پہنچاتی ہیں ، نینا
فرحان کے پاس پیسے کے لئے نہیں دوستی اور مزے کے لئے آتی تھی ،اسلئے فرحان کی سپیڈ
اور جوش کو بڑھانے کے لئے نینا نے ہولے ہولے چیخنا شروع کر دیا اور ساتھ میں اسے
آہستہ کرنے کی التجا کرنے لگی تاکہ فرحان کا جوش اور بڑھے، ہوا بھی ایسے ، فرحان
نینا کی چیخیں سن کر مزید تیز ہو گیا اور مزید زور سے گھسے مارنے لگا جس سے نینا
کو اور زیادہ مزا ملنے لگا ، دو سے تین منٹ بعد ہی فرحان فارغ ہونے کے قریب پہنچ
گیا اور تیز تیز جھٹکوں کے ساتھ ہی نینا کی پھدی میں پانی چھوڑنے لگا ،فرحان کے لن
نے جیسے ہی نینا کی پھدی میں پانی چھوڑا تو گرم گرم منی نے اس کے جسم میں بھی
اکڑاھٹ پیدا کرنا شروع کر دی اور فرحان کے آخری جھٹکوں نے نینا کی پھدی کو بھی
پانی چھوڑنے پر مجبور کر دیا ، فرحان اور نینا دونوں منزل کو پہنچ چکے تھے -
دونوں بیڈ پر فارغ ہونے کے بعد ننگے لیٹے تھے ، فرحان نے
اب اگلی منزل کا قصد کیا اور نینا کی گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس سے پوچھا
"جان ہم کافی دفعہ مل چکے ہیں لیکن تم نے کبھی یہ
(اسکی گانڈ کے سوراخ پر انگلی رکھتے ہوئے ) نہیں دی "-
" جان یہ تو میں (گانڈ) ڈیمانڈ پر دیتی ہوں ، تم نے
ڈیمانڈ کی ہے تو میں اپنی جان کو تو انکار نہیں کر سکتی ، ابھی لے لو " نینا
نے فرحان کو اپنی رضامندی دی تو فرحان نے اسکے ہونٹوں کو چوم لیا اور اس کے چوتڑوں
کو دبانے لگا - کچھ دیر نینا کے جنسی اعضاء سے چھیڑ چھاڑ سے فرحان کے لن نے اک نئے
جہاں کی دریافت کے لئے پھر سے انگڑائی لی اور پھر سے تن گیا ، فرحان نے جب دیکھا
کہ اس کے لن میں پھر سے جان پڑ گئی ہے تو اس نے نینا کو الٹا لیٹنے کا کہا ، نینا
الٹی لیٹ گئی، نینا کے چوتڑ ابھرے ابھرے بہت سیکسی لگ رہے تھے ، فرحان نے اپنے منہ
سے تھوک نکال کر اپنے لن پر ملا اور نینا کی گانڈ کے سوراخ پر لگایا اور اس کے
اوپر لیٹ گیا ، اپنا لن اسکی گانڈ کے سوراخ پر ٹکایا اور لن کے ٹوپے سے اسکی گانڈ
کے سوراخ پر دباؤ بڑھانے لگا ، لن کی ٹوپی نینا کی گانڈ میں داخل ہوئی تو اسکے منہ
سے درد بھری کراہ نکلی تو فرحان نے ہلکا سا جھٹکا مارا اور اس کا آدھا لن نینا کی
گانڈ میں چلا گیا ، فرحان نے ایک اور جھٹکا دیا اور سارا لن نینا کی گانڈ میں اتر
گیا ، فرحان کو نینا کی گانڈ پھدی کی نسبت تنگ لگی کیونکہ لن پر گانڈ کے سوراخ کی
پکڑ پھدی سے زیادہ تھی ، فرحان نے نینا کی گانڈ میں اپنے لن کو اندر باہر کرنا
شروع کر دیا اور آہستہ آہستہ اپنی سپیڈ تیز کر دی ، فرحان جب اپنا لن نینا کی گانڈ
میں اندر کرتا تو نینا اپنی گانڈ فرحان کے لن کی طرف دباتی تاکہ لن زیادہ سے زیادہ
گانڈ کی گہرائی کو ماپ سکے ، جس وقت فرحان نینا کی گانڈ مار رہا تھا اس وقت کوئی
اس کی بیوی کی عزت سے کھیلنے کی کوشش کر رہا تھا -
جس وقت فرحان نینا کی گانڈ مار رہا تھا ٹھیک اسوقت فرحان کے سسرال
میں شمائلہ کا کزن اسکی عزت سے کھیلنے کی کوشش کر رہا تھا -شمائلہ جب فرحان سے
اجازت لے کر اپنے میکے گئی تو اس کے ابو آفس جا چکے تھے اور گھر میں اسکی امی
اکیلی تھی ، شمائلہ کی امی اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور ماں بیٹی آپس میں باتیں
کرنے لگیں ، باتوں باتوں میں دوپہر ہو گئی تو شمائلہ کی امی کے دل میں خیال آیا کہ
شام میں جب فرحان شمائلہ کو لینے آئے گا تو اسکی خاطر تواضع کا بندوبست تو ہونا
چاہئیے ، یہ سوچ کر شمائلہ کی امی نے اس سے کہا ، "بیٹی تم تھوڑا آرام کر لو
میں ایک گھنٹے تک بازار سے چکر لگا کر آتی ہوں " یہ کہہ کر شمائلہ کی امی
بازار کے لئے روانہ ہو گئی ، ابھی اسے گھر سے نکلے پانچ منٹ ہی ہوئے تھے کہ شمائلہ
کا کزن ان کے گھر پہنچ گیا ، شمائلہ چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی اور اس کا دوپٹہ
سائڈ پر رکھا ہوا تھا ، شمائلہ اپنے کزن کو دیکھ کر جلدی سے اٹھی اور دوپٹہ اٹھا
کر اپنے سینے پر پھیلا لیا اور اسکی چھاتیاں دوپٹے کے نیچے چھپ گئیں لیکن چھپنے سے
پہلے شمائلہ کے کزن نے ان کا بھرپور جائزہ لے لیا تھا -" آنٹی کہاں ہیں
؟" شمائلہ کے کزن نے اس سے پوچھا تو شمائلہ نے کہا " امی بازار گئیں ہیں " -
شمائلہ کے کزن کا نام سلیم تھا ، وہ ایک نمبر کا ٹھرکی
لڑکا تھا ، اکیلی لڑکی دیکھ کر تو اس کی رالیں بہنا شروع ہو جاتی تھیں ، اسکی
شمائلہ پر اسکی شادی سے پہلے کی ہی نظر تھی لیکن شمائلہ کے ساتھ اسے کبھی تنہائی
میسر نہیں آئی تھی اسلئے وہ ابھی تک سلیم کے شر سے بچی ہوئی تھی لیکن آج سلیم کو
تنہائی ملی تو اس نے موقع کا فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کر لیا -
وہ جا کر شمائلہ کے ساتھ بیٹھ گیا اور ادھر ادھر کی
باتیں کرنے لگا ، باتوں کے ساتھ ساتھ وہ شمائلہ کے ہاتھ پہ ہاتھ اس انداز میں
مارتا جیسے لاشعوری طور پر ایسا ہو رہا ہے ، شمائلہ نے یہ محسوس کرتے ہوئے وہاں سے
اٹھنا چاہا تو سلیم نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ، شمائلہ نے اسکی طرف غصہ سے دیکھا اور
اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی تو سلیم نے اسے اپنی طرف کھینچا اور اپنی گود میں گرا
لیا ، شمائلہ نے سلیم کی گود سے اٹھنا چاہا تو اس نے شمائلہ کے گرد اپنی بانہوں کا
شکنجہ کس لیا ، شمائلہ نے خود کو اس سے بچانے کی جدوجہد میں سلیم کے بازو پر کاٹ
لیا، سلیم کے منہ سے اک زوردار چیخ نکلی اور شمائلہ کے گرد اس کی بانہوں کا گھیرا
ڈھیلا پڑ گیا اور شمائلہ چکنی مچھلی کی طرح اسکی بانہوں سے پھسل کر باہر دروازے کی
طرف بھاگی تو سلیم نے تیزی سے اسے باہر نکلنے سے پہلے ہی پکڑ لیا اور اسے بالوں سے
کھینچ کر چارپائی پر دھکیل دیا ، سلیم اب زبردستی پر اتر آیا تھا ، شمائلہ اب
چارپائی پر گر چکی تھی اور سلیم اس کے اوپر آن گرا اور اس کے سینے پر ہاتھ رکھا
اور اسکی چھاتی پکڑ لی اور دبانے اور مسلنے لگا ، شمائلہ نے اب اسکی منت سماجت
کرنا شروع کر دی تھی لیکن سلیم ہاتھ آیا چانس ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا ، ویسے بھی
جب شیطان سر پر سوار ہو تو منت سماجت پر کون کان دھرتا ہے - سلیم نے اسکی شلوار پر
ہاتھ رکھا اور ایک دم نیچے کھینچ دی ، شمائلہ کی پھدی دیکھ کر سلیم کی آنکھیں چمک
اٹھیں اور اس نے جلدی سے اپنی بھی شلوار اتاری ، سلیم کا لن شمائلہ کی پھدی کو
دیکھ کر پورے جوش سے کھڑا تھا اور اس نے اپنے ہاتھ پر تھوک پھینکا اور لن کو تھوک
سے گیلا کر لیا ، لن کے ٹوپے کو شمائلہ کی پھدی کے ہونٹوں کے درمیان ایڈجسٹ کیا
اور ایک زوردار جھٹکہ دیا اور سلیم کا لن شمائلہ کی چوت میں اتر
گیا ، شمائلہ کے منہ سے ایک چیخ نکلی اور اس نے خود کو سلیم کے نیچے سے نکالنے کی
کوششیں کرنے لگی ، سلیم نے شمائلہ کو مضبوطی سے جکڑا ہوا تھا اور شمائلہ اپنی پوری
قوت لگانے کے باوجود بھی خود کو سلیم کے چنگل سے نہ بچا پائی ، سلیم نے پوری طاقت
سے اپنے لن کو شمائلہ کی پھدی میں آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا ، ادھر فرحان نینا
کی گانڈ مار رہا تھا ادھر سلیم شمائلہ کی پھدی سے مستفید ہو رہا تھا ، اسی کا نام
مکافات عمل ہے ، بیشک ہم انجان رہتے ہیں لیکن ہمارے عمل کا ردعمل کہیں نہ کہیں ،
کسی نہ کسی رشتہ پر اثر پذیر ہو رہا ہوتا ہے لیکن ہم اس سے واقف نہیں ہوتے ، ایک
حساب سے دیکھا جائے تو لاعلمی بھی اک نعمت ہے لیکن لاعلم رہنے سے حقیقت نہیں بدلتی
- شام جب فرحان شمائلہ کو گھر واپس لے کر گیا تو دونوں ایکدوسرے سے آنکھیں چرا رہے
تھے -دونوں کے دل میں ایک چور تھا ، جھجک تھی اور دونوں ہی ضمیر کے مجرم تھے ، رات
جب دونوں لیٹے ہوئے تھے تو شمائلہ کے دل میں بار بار یہ خیال آ رہا تھا کہ وہ اپنے
ساتھ ہونے والی زبردستی کا اپنے شوہر کو بتا دے
لیکن ایک ڈر تھا ، خوف تھا کہ پتا نہیں کہ اس کا ردعمل کیسا ہو گا
، اسی خوف کے زیر اثر شمائلہ کچھ نہ بتا سکی اور لاشعوری طور پر وہ فرحان کے ساتھ
جڑ گئی اور اس کے سینے میں سمانے کی کوشش کرنے لگی ، فرحان نے جب شمائلہ کو خود سے
چمٹتے دیکھا تو اس نے بھی شمائلہ کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا اور اس کی کمر پر
ہاتھ پھیرنے لگا ، فرحان کے دل میں بھی چور تھا وہ سمجھا شاید شمائلہ جذبات کی شدت
سے ایسا کر رہی ہے دونوں ہی ایکدوسرے کو دھوکہ دے رہے تھے ، پہلے ہاتھ کمر پر تھا
، کمر سے پستانوں پر گیا ، پستانوں سے پیٹ پر اور پھر کچھ منٹوں بعد دونوں کے کپڑے
اتر گئے اور لن پھدی کا ملاپ ہو گیا ، دونوں ہی محسوس کر رہے تھے کہ آج اس کا
پارٹنر پہلے سے زیادہ پرجوش ہے ، ایک زوردار اور پرلطف چدائی کے بعد دونوں سو گئے -
اس رات فرحان کا شمائلہ سے ہمبستر ہونا اسکی زندگی کی بھیانک غلطی
تھی ، اس غلطی کا خمیازہ اسے تا عمر بھگتنا پڑا -
اگلے دن دکان پر فرحان کو دوپہر کے وقت پیشاب کی حاجت
ہوئی تو اسے پیشاب کی نالی میں جلن سی محسوس ہوئی لیکن قابل برداشت تھی ، اس نے
زیادہ توجہ نہ دی ،
اگلے
دن فرحان کی جلن میں اضافہ ہو چکا تھا اور اسکی پیشاب کی نالی سے ریشہ نما مواد
بھی آنا شروع ہو گیا ، فرحان نے اپنے ایک دوست سے اس بات کا ذکر کیا تو اس نے
بتایا کہ یہ ایک جنسی بیماری ہے اور عام طور پر کال گرلز سے لگتی ہے ، اس سے پہلے
کہ یہ بیماری تمہیں ناکارہ بنا دے تم کسی مستند ڈاکٹر سے رابطہ کرو ،
فرحان اسی شام ایک حکیم کے پاس چلا گیا اور حکیم کو سارا
مسئلہ بتایا ، حکیم نے اسے دوائی دی اور فرحان کو اپنی بیوی سے ہمبستری سے ٹھیک
ہونے تک روک دیا
-
فرحان تو اپنی بیوی سے پہلے ہی ہمبستری کر چکا تھا اور
نینا سے لئے ہوئے جراثیم شمائلہ میں منتقل کر چکا تھا ، تین دن بعد فرحان بیماری
سے نجات پا چکا تھا-
تقریبا ایک ہفتہ بعد جب صبح شمائلہ اٹھی تو اس نے شلوار
پر خون کا دھبا دیکھا تو وہ پریشان ہو گئی اور اس بات کا ذکر فرحان سے کیا تو
فرحان اسے لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے گیا ، لیڈی ڈاکٹر نے الٹراساؤنڈ کرنے کے بعد
شمائلہ کو بتایا کہ وہ شدید قسم کے اندرونی انفکشن سے متاثرہ ہے اس کا واحد حل یہ
ہے کہ ابارشن کروایا جائے ورنہ زچہ(ماں) کی زندگی بھی جا سکتی ہے ، بادل ناخواستہ
فرحان کو شمائلہ کا ابارشن کروانا پڑا -
شمائلہ کے لئے یہ صدمہ نا قابل برداشت اور اذیت ناک تھا
، اس کی ذہنی اور جسمانی حالت کافی ابتر ہو گئی ، وہ سمجھ رہی تھی کہ بچے سے
محرومی کی سزا سلیم سے سیکس تھا حالانکہ اسمیں اسکی مرضی شامل نہیں تھی لیکن وہ
خود کو قصوروار سمجھ رہی تھی -
دوسری طرف ان حالات کا ذمۂدار فرحان خود کو سمجھ رہا تھا
، اگر ایک طرح سے دیکھا جائے تو وجہ وہ خود ہی تھا نہ وہ نینا سے سیکس کرتا اور نہ
اس کی بیوی انفکشن کا شکار ہوتی اور نہ ہی ابارشن کروانا پڑتا -
قصہ مختصر ، فرحان نے جنسی بیماری سے نجات تو حاصل کر لی
تھی لیکن اس کے لن میں پہلے جیسی طاقت نہ رہی ، نینا سے اسکی دوستی ختم ہو گئی اور
اسکی بیوی دوبارہ حاملہ بھی نہ ہو سکی -
شمائلہ جنسی لطف سے بھی محروم ہے اور اولاد کی نعمت سے
بھی -
شادی کے بعد شمائلہ سے خوشیاں سنبھالے نہیں سنبھلتی تھیں
اور خود کو وہ بہت خوش نصیب اور خوش قسمت سمجھتی تھی اب وہی خود کو بدنصیب اور
بدقسمت سمجھتی ہے ، وہ اکثر تنہائی میں سوچتی ہے کہ
میں خوش کیوں نہیں
میرے حصے کی خوشیاں کیوں مجھ سے روٹھ گئی ہیں ؟
اس سوال کا جواب آپ کے پاس ہے تو ضرور کمنٹ میں دیجئے گا -
میرے خیال میں جو خوشیاں ماں باپ کا دل دکھا کر حاصل کی
جائیں وہ اکثر ناپائیدار اور عارضی ہوتی ہیں -
آپ اس کہانی سے کیا سبق حاصل کرتے ہیں اس کا تو مجھے پتا
نہیں لیکن میرا کہانی لکھنے کا مقصد آپ کو یہ بتانا تھا کہ کال گرل سے سیکس کے بعد
اپنی بیوی سے سیکس ہرگز ہرگز نہیں کرنا چاہئیے -
ختم شد
میرا
پہلا پہلا پیار
تحریر: ماہرجی
میں اپنے ایک دوست سے ملنے اس کے گھر جا رہا تھا کہ اس
کے گھر سے پہلے گلی میں ایک لڑکی اپنے دروازے میں کھڑی تھی میں نے اس کو دیکھا تو
وہ مجھے اچھی لگی میں نے اس کو دیکھنے کیلئے دوبارہ سے چکر لگایا اس نے ہنس کر
دیکھا میں نے اس کا نام پوچھااس نے روبی بتایا۔ دو تین دن ایسے ہی گلی میں ہلکی
پھلکی بات چیت ہوتی رہی۔ ایک دن میں نے ملنے کو کہا تو مگر وہ ہنستے ہوئے کہنے لگی
رات کوآٹھ بجے آنا ۔ رات کو آٹھ بجے میں گیا تو دیکھا کہ واقعی وہ دروازے میں کھڑی
ہے ۔ اس کے فگر36,32,34 بہت خوبصورت تھے میں اس کو کھڑا کافی دیردیکھتا رہا
دو دن بعد اس نے مجھے کہا کہ تم کل نو بجے آنا میرے گھر
پر کوئی نہیں ہو گا۔ میں دوسرے دن تیار ہو کر اس کو ملنے چلا گیا نو بجے سے پہلے
ہی میں اس کی گلی میں تھا۔ دروازہ کھلا تھا مگر میری ہمت نہیں تھی کہ اندر جا سکوں
تھوڑی دیر بعد وہ دروازے پر آئی اور ادھر ادھر دیکھ کر مجھے کہا کہ اندر آجاﺅ میں اندر چلا گیا تو
وہ مجھے ایک بیڈ روم میں لے گئی اور سائیڈ پر لگے صوفے پر بیٹھا دیا۔ جہاں پر ایک
بچی سوئی ہوئی تھی میںنے پوچھا یہ کون ہے تو اس نے مجھے بتایا کہ اس کی بیٹی ہے۔
میں حیران رہ گیا کہ میں جسے کنواری لڑکی سمجھ رہا تھا وہ شادی شدہ ہے۔
ابھی میں اسی پریشانی میں تھا کہ اس نے میرے پاس بیٹھتے
ہوئے مجھے فرنچ کس کردی۔ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ پھر وہ باتیں کرنے لگی کہ اس کا
شوہر اور ساس ایک شادی میں شرکت کیلئے لاہور سے باہر گئے ہیں اور دو دن بعد آئیں
گے لیکن میں ذہنی طور پر پریشان تھا کچھ وقت کے بعد اس نے دوبارہ مجھے کس کرنا
شروع کردی میرے رسپانس نہ دینے پر اس نے پوچھا کیا بات ہے کوئی پریشانی ہے تم میرا
ساتھ کیوں نہیں دے رہے ہو۔ میںنے کہا کہ میں تم کو کنواری سمجھ رہا تھا اور تم تو
شادی شدہ ہو۔ اس نے کہا کہ کنواری اور شادی شدہ میں فرق ہی کتنا ہوتا ہے لیکن میں
تم کو کنواری سے زیادہ پیار کروں گی اور تم بھول جاﺅ گے کہ تم نے کسی شادی
شدہ عورت کو پیار کیا ہے ویسے بھی میری عمر ابھی صرف 25سال ہے ۔ دیکھنے میں واقعی
میں کنواری لگتی ہوں مزہ بھی کنواری والا دونگی۔ اب پھر اس نے کسنگ شروع کردی میں
نے بھی رسپانس کرنا شروع کردیا۔ اب میں اور وہ فرنچ کس کررہے تھے اور میرے ہاتھ اس
کے جسم کو ناپ رہے تھے کبھی اس کے ممے اور کبھی اس کی کمر ‘ پیٹ پر میں اپنے ہاتھ
پھیر رہا تھا میںنے اپنا ہاتھ اس کے گریبان سے اندر ڈالا اور اس کا مما پکڑ کر
دبایا تو اس کے منہ سے آہ آہ کرکے سسکی نکلی اور وہ ایک دم سے پیچھے ہٹ گئی میں نے
پوچھا کیا ہوا تو وہ بغیر کچھ بولے وہاں سے اٹھی اور کمرے میں پڑے ہوئے ساﺅنڈ سسٹم کو آن کرکے
دوبارہ میرے پاس آکر بیٹھ گئی۔ میں نے پوچھا اس کو آن کیوں کیا تو اس نے کہا کہ
ہماری آوازیں باہر نہ چلی جائیں اس لئے۔ اب دوبارہ کسنگ شروع ہو گئی میںنے دوبارہ
سے اس کے ممے دبانے شروع کردیئے جیسے یہ میں اس کے ممے دباتا اس کے منہ سے آہ آہ
آہ آہ آہ او او او او کی آوازیں نکلنا شروع ہو جاتیں۔ میںنے آہستہ سے اس کی قیمض
کو اوپر اٹھایا اور دونوں ہاتھوں سے اس کے ممے پکڑ لئے اور ان کو مسلنا شروع کر
دیا اب اس نے آنکھیں بند کرلیں اور سسکاریاں بھرنے لگی۔ میں نے اس کی قیمض کو
اتارنے کی کوشش کی تو اس نے خود ہی اپنی قمیض اتار دی اب میرے سامنے وہ کالے رنگے
کے بریزر میں آنکھیں بند کئے صوفے سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی میرے سے رہا نہ گیا اور
میں نے بریزر کے اوپر سے ہی ممے کو منہ میں لے کر چوسناشروع کردیا تو اس کے منہ سے
بے ساختہ آہ او او آہ میں مر گئی کی آوازیں نکلنا شروع ہو گئیں۔ میںنے بریزر کی ہک
کھول دی اور اس کو اتار پھینکا اب اس کے سفید ممے جن پر گلابی رنگ کی ٹیکی بنی ہوئی
تھی میرے سامنے تھی میںنے ایک ممے کو ہاتھ میں پکڑ کر مسلا اور دوسرے کو منہ میں
لے کر چوسناشروع کردیا اب اس کی حالت یہ تھی کہ وہ اپنے اپنی آواز کو روکنے کیلئے
اپنے ہونٹ کاٹ رہی تھی اور میرے سر کو پکڑ کر اپنے ممے پر دبا رہی تھی تقریباً دس
سے پندرہ منٹ تک میں باری باری اس کے ممے چوستا رہا اسی دوران اس نے مجھے زور سے
لگے لگایا اس کا جسم ہلکا ہلکا کانپ رہا تھا اچانک ایک جھٹکا کھا کر وہ ڈھیلی ہو
گئی میں نے پوچھا کیا ہوا تو اس نے جواب میں ایک لمبی فرنچ کس کی اور کہا تم بہت
نشیلے ہو میں فارغ ہو گئی ہوں۔ میرا لوڑا (ساڑھے سات انچ )فل ٹائٹ ہوا ہوا تھا اس
نے کہا تم بیٹھو میں ابھی آتی ہوں اور کمرے کے سات اٹیچ باتھ روم میں چلی گئی واپس
آکر بتایا کہ میں پھدی صاف کرنے گئی تھی۔ اب دوبارہ سے اس نے کسنگ شروع کردی میں
نے کہا کہ میں نے تم کو پیار کیا ہے اب تم کرو اس نے کہ ہاںمیں ضرور تم سے پیار
کرتی ہوں اس نے کھڑے ہو کر مجھے بھی کھڑا کیا اور میرے لن پر ہاتھ رکھ کرکسنگ کرنے
لگی اور مجھے کہا کہ بیڈ پر چلو میں نے کہا وہاں پر تمہاری بیٹی سوئی ہوئی ہے اس
نے بچی کو اٹھا کر صوفے پر لٹا دیا اور اب ہم دونوں بیڈ پر آگئے اس نے میری شرٹ کے
بٹن کھول دیئے اور اس کو اتار کر پرے پھینک دیا اور اب وہ میری پینٹ کو کھولنے لگی
میں نے جلدی سے اپنی پینٹ خود ہی اتار دی اب میں انڈرویر میں اوروہ شلوار پہنے
ہوئے تھی۔ اس نے آہستہ آہستہ فرنچ کس کرنے کے بعد میرے پیٹ پر کس کی اور میری
ٹانگوں پر آکر ہلکی ہلکی کاٹنا شروع کردیا اور میرا انڈرویئر پکڑ کر نیچے کھینچا
تو میرا فل ٹائٹ لن ایک دم سے نکل کر سامنے آ گیا وہ ایک دم سے اس کو دیکھ کر
حیران رہ گئی میں نے پوچھا کیا ہوا تو بولی میرے خاوند کا لن تو اس سے چھوٹا اور
کم موٹا ہے۔ اس نے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر سہلانا شروع کردیا اور اپنا ہاتھ اوپر
نیچے کرنے لگی پھر اس نے میرے ٹوپے پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے آہستہ آہستہ ٹوپا اس کے
منہ میں تھا اس نے اس پر زبان پھیرنی شروع کی تو مجھے بھی مزہ آنے لگا۔ کچھ دیر
بعد ہی میرا آدھے سے زیادہ لن اس کے منہ میں تھا اور وہ اس کو لولی پپ کی طرح چوس
رہی تھی اور میرے منہ سے بے اختیار آہ آہ کی آوازیں نکل رہی تھیں۔ اس نے لن اور
ٹٹوں پر زبان پھیرنا شروع کی تواور زیادہ مزہ آیا۔ اسی مزہ میں میں فارغ ہونے کے
قریب پہنچ گیا میں نے اس کو بتایاکہ میں فارغ ہونے لگا ہوں تو اس نے کہا کہ ٹھہرو
اور لن پرزیادہ تھوک لگا کر ہاتھ سے مٹھ مارنے لگی وہ لیٹ گئی اور مجھے کہا کہ میں
اٹھ کر اس کے جسم پر اپنی منی پھینک دوں۔ اب وہ تیزی سے مٹھ مار رہی تھی کہ میں
فارغ ہو گیا ساری منی اس کے مموں اور پیٹ پر گر گئی ۔ وہ اٹھی اور اٹھ کر کپڑے سے
میرے لن کو اچھی طرح صاف کیا اور اپنا جسم دھو کر واپس آگئی۔ اب اس نے مجھے جوس
پلایا اور پھر دوبارہ سے لیٹ کر کسنگ کرنے لگے میرا لوڑا پھر کھڑا ہونا شروع ہو
گیا اور اس نے دوبارہ اس کو منہ میں لے لیا اس نے اب ہم 69پوزیشن لے لیتے ہیں
میںنے اس کی پھدی چاٹنے سے انکار کردیا۔ اس نے کہا کہ چلو تم میرے ممے چوسو ایک دو
منٹ کے بعد جب مجھے اس کے لن چوسنے سے مزہ آنے لگا تو اس نے کہا کہ میری چوت کو
بھی چاٹو نہیں تو اب بس۔ میں مزہ میں تھا نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی چوت کو چاٹنا
پڑا۔ میں نے اس کی ٹانگوں کو کھولا اور اس کی چوت پر کس کی اور آہستہ سے زبان
پھیری کہ وہ اس کی سسکاریاں نکلنے لگیں اور وہ تیزی سے میرا لن چوسنے لگی۔ اس کی
آوازوں سے مجھے بھی اچھا لگا اور میں نے اچھی طرح سے اس کی چوت کو چاٹنا شروع
کردیا کچھ منٹ کے بعد وہ پچھے ہو کر بولی کہ اب میری پھدی کو پھدا بنا دو کیونکہ
میرے شوہر کا لن تو اس قابل نہیں ہے لیکن تمہارے سائز سے مجھے لگتا ہے کہ آج میری
پھدی پھدی نہیں پھدا بن جائے گی ۔ میں نے اس کو پکڑ کر سیدھا کیا اور اس کو لٹا
کرٹانگیں کھولیں اس نے اپنی کمر کے نیچے ایک تکیہ سیٹ کرلیا۔ اب اس کی چوت میرے
سامنے تھی ۔ میں نے اپنا لوڑا اس کی چوت پر پھیرنا شروع کردیا۔ جیسے ہی میرا لوڑا
اس کے سوراخ پر جاتا تو وہ سسکاری بھرتی اور اوپر کو دھکا لگاتی اور جیسے ہی اس کے
دانے کو ٹچ کرتا تو آہ او آہ آہ کی آوازیں نکالتی اس کی آوازیں مجھے اورزیادہ مزہ
دے رہی تھی۔ اس نے کہا میرے یار اب نہ تڑپاو اور اپنا خوبصورت اور موٹا لوڑا میری
پھدی میں ڈال دو لیکن آہستہ آہستہ اندر کرنا یہ کافی بڑا ہے خیر میں نے پھدی کے
سوارخ پر لوڑے کو فٹ کیا اور آہستہ سے جھٹکا دیا لیکن میرا لوڑا اندر نہ جا سکا۔اس
نے پوچھا کیا پہلے کبھی پھدی نہیں ماری جو اناڑیوں کی طرح کررہے ہو تو میں نے
بتایا کہ یہ میرا پہلا موقع ہے تو اس نے کہا کہ میری پھدی تمہارے لوڑے کے حساب سے
ٹائٹ ہے تم ذرا زور لگاﺅ گے تو یہ اندر جائے گا اور کہا کہ میں تم کو بہت کچھ سکھا دوںگی۔
اس نے کہا کہ ذرا زور لگاﺅ میں نیچے سے زورلگاتی
ہوں۔ اب دوبارہ سے میں نے زور سے جھٹکا لگایا تو اس نے بھی نیچے سے جھٹکا لگایا
لیکن یہ اس کو مہنگا پڑا اور میرا آدھے سے زیادہ لوڑا اس کی پھدی میں تھا اور اس
کے منہ سے ایک چیخ نکل گئی اگر کمرے میں میوزک آن نہ ہوتا تو اس کی آواز سے ہمسائے
ضرور آجاتے۔ اس نے کہا بس کرو اتنا ہی ڈالو زیادہ برداشت نہیں ہو گا اس کی پھدی
مجھے واقعی ہی ٹائٹ تھی۔ اب اس نے کہا کہ اب ہلنا شروع کرو اور میں نے آہستہ آہستہ
اندر باہر کرنا شروع کردیا۔ اب وہ بھی نیچے سے ہل کر مجھے رسپانس کررہی تھی ۔ دو
تین منٹ کے بعد اس نے کہا اب تھوڑا اور ڈالو میرا مزے سے برا حال تھا میں نے سوچا
کہ کیوں نہ ایک ہی دفعہ اندر کردو اور میںنے یہ کر دکھایا میں نے اپنا لن ٹوپے کے
علاوہ باہر نکال لیا اور اس کو فرنچ کس کرنے لگا اب میں نے ایک زور دار جھٹکے سے
سارا لوڑا اس کی پھدی میں ڈال دیا اب اس کی چیخ میرے منہ میں رہ گئی کیونکہ میں اس
کو فرنچ کس کررہا تھا وہ نیچے سے تڑپ کررہ گئی ۔ اب میرا لوڑا فٹ ہو چکا تھا ایک
دو منٹ کے بعد اس نے پھر کہا اب ہلنا شروع کردو میں برداشت کرلوں گی۔ میں نے ہلنا
شروع کردیا۔ اس کے منہ سے مزے اور تکلیف سے آہ اوئی او آہ آہ آہ آہ آہ
................
کی آوازیں نکل رہی تھیں اور میں بھی کافی مزے میں تھا کہ
اس نے کہا کہ زور سے کرو میںنے اپنے جھٹکوں میں تیزی لے آیا اور اب کمرے میں
میوزیک کے ساتھ دو جسم ٹکرانے کی آوازیں بھی آرہی تھیں پانچ یا سات منٹ بعد اس نے
نیچے سے زیادہ زور لگا کر رسپانس شروع کردیا اور اس کی آوازوں میں بھی تیزی آگئی
آہ آہ آہ آہ آہ آہ آہ آہ آہ آہ او او او او اوئی آہ آہ آہ ................ مزہ
آگیا تم نے مجھے سکون دلا دیا۔ مزہ آ گیا آہ آہ آہ ............ جیسے ہی میں
جھٹکالگاتا وہ اچھل کر میرا ساتھ دیتی۔ اس نے اپنی ٹانگوں سے میری کمر کے گرد جال
بنا لیا اور مجھے جھکڑ کر رکھ دیا مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اس کی پھدی میرے لوڑے کو
بھینچ رہی ہے اور
اس کا جسم ایک دم سے اکڑ کر ڈھیلا ہو گیا اوروہ بھی ایک
لمبی اوئی کے بعد آرام سے لیٹ گئی میں نے پوچھا کیا ہوا بولی میں فارغ ہو گئی ہوں
مجھے بھی محسوس ہوا کہ میرا لوڑا کافی چکنا ہو گیا ہے اس کے فارغ ہونے سے پھدی منی
سے بھر چکی تھی اور عجیب و غریب آوازیں نکل رہی تھی۔ اس نے کہا اپنا لوڑا باہر
نکالو میں نے کہا میں تو ابھی تک فارغ نہیں ہوا اس نے کہا ایسے تم کو زیادہ مزہ
نہیں آئے گامجھے پھدی صاف کرلینے دو پھر کرنا۔ میں نے لوڑا باہر نکا لیا۔ اس نے
کپڑے سے اچھی طرح اپنی پھدی کو صاف کیا اور میرے لوڑے کو بھی صاف کرنے کے بعد بولی
اب مجھے اچھی طرح سے چودو میں نے اس کو گھوڑی بننے کو کہا وہ گھوڑی بن گئی میں نے
پھدی کے اوپر لوڑا رکھا اورزور دار جھٹکے سے اندر ڈال دیا۔ میرا لوڑا پھنستا ہوا
اندر چلا گیا۔
میں نے دوبارہ اس کی چدائی شروع کردی۔ لن پھنس کر اندر
جا رہا تھا جس کی وجہ سے اس کو درد ہو رہی تھی اور وہ مزے اور تکلیف سے آہ آہ اوئی
آہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی آوازیں نکال رہی تھی۔ اس نے بھی ہلنا شروع کردیا اورمیرا ساڑھے
سات انچ کا لوڑا فل اندر تھا اور اس کی چوت میرے لوڑے کو بھینچ رہی تھی۔ وہ بھی
مزے سے سسکیاں رہی تھی پندرہ منٹ تک چودنے کے بعد اس نے کہا میں تھک گئی ہوں تم نے
کوئی دوائی وغیرہ تو نہیں کھائی ہے جو اتنا ٹائم لگا رہے ہو میں نے کہا نہیں اس نے
سٹائل بدلنے کو کہا اب اس نے مجھے صوفے پر بٹھایا اور خود میری گود میں لن کواپنی
پھدی پر سیٹ کیا اور اوپر بیٹھ گئی اور آہستہ آہستہ ہلنے لگی اس کی سپیڈ تیز ہوتی
جا رہی تھی اور مزے سے میرے منہ سے بھی آوازیں نکل رہی تھیں چند منٹ کے بعد میں نے
اس کو کہا کہ میں فارغ ہونے والا ہوں تو اس نے ہلنا بند کردیا اور مجھے کس کرنے
لگی اور کہا کہ اب پھر مجھے بیڈ پر لٹا کر چودو اور جتنی طاقت سے ہو سکتا ہے جھٹکے
مارنا میں نے کہا ٹھیک ہے دوبارہ سے اس کو لٹا کرتکیہ اس کی کمر کے نیچے سیٹ کیا
اور دوبارہ لوڑے کو اس کی پھدی کے اوپر رکھ جھٹکے سے اندر کردیا اس نے آہ کی اور
سسکاری بھری اور نیچے سے اوپر کو اٹھی پورا لن جڑ تک اس کی پھدی میں گھس گیا۔ اب
دوبارہ سے اس کی زبردست چدائی شروع کردی میں آدھے سے زیادہ لن باہرنکال لیتا اور
اس کو جھٹکے سے دوبارہ اندر ڈال دیتا اس نے آہ آہ آہ اوئی او کے ساتھ زور سے کرو
زور سے کرو پورا لن ڈال دو میری پھدی کی کسر پوری کردو زور سے پورا لن ڈال دو
(ٹوٹل 30-35منٹ)کی زبردست چدائی کے بعد میں فارغ ہونے
والا ہو گیا تھا میں نے اس کو بتایا تو اس نے کہا کہ پھدی کے اندر ہی فارغ ہونا اس
کی پیاس بجھ جائے گی۔ میں نے زور سے جھٹکے لگانے شروع کردیے وہ فل رسپانس کررہی
تھی۔
اس نے کہا کہ جلدی کرو میں بھی فارغ ہونے والی ہوں۔ چار
پانچ فل سپیڈ جھٹکوں کے بعد اس نے مجھے زور سے پکڑ لیا اور میں نے اس کو میرے لن
نے ساری منی اس کی پھدی میں اگل دی وہ بھی میرے ساتھ ہی فارغ ہو گئی۔ اس کی پھدی
میری اور اس کی منی سے بھر گئی میںاس کے اوپر ہی لیٹ گیا اس نے زور سے مجھے کس کی
میری زبان چوسنا شروع کردی۔ اس نے کہا کہ اس نے زندگی میں اس سے زیادہ مزے کا سیکس
نہیں کیا۔ اب وہ میرے ساتھ اکثر سیکس کرے گی اور میرے لئے زیادہ مزے کا انتظام بھی
کرے گی ۔ اس رات میں چار دفعہ فارغ ہوا اور وہ بھی سات آٹھ دفعہ ہوئی ۔
اس نے تو میری اتنی تعریفیں کیں کہ اس کے محلے کی دو
اورعورتیں اوراس کی کنواری اور شادی شدہ بھانجی
اور ان کی دوستوں کو کئی دفعہ چودا.
THE END
👰👯😩😟
نادانی گمنامی
تحریر: ماہرجی
میری منگنی بچپن میں ہی میرے چچا کے بیٹے سےکردی
گئی تھی ۔ یہ میرے دادا جانی کی خواہش تھی۔ میرے ابو اور چچا جان دادا جان کی بات
کو ٹال نہیں سکتے تھے ۔ ہمارے
گھر میں ہر طرح کی
آسائشات کی فروانی تھی. دادا جان 4 مربعوں کے مالک تھے ۔ دادا کے بڑے بیٹے شیر خان
یعنی میرے ابوآڑھت کرتے تھے اور چھوٹے بیٹے بہادر خان
زمینوں کی دیکھ بھال
کرتے تھے. گھر میں آسائشات کی فروانی کے باوجود ماحول بہت سخت تھا ۔میں نے ہائی
سکول کے بعد کالج جانا چاہا تو دادا جان نے یہ کہ کر منع کردیا کہ
بیٹیوں کے لئے اتنی تعلیم
کافی ہے ۔ میرے ارمانوں پر اوس پڑگئی اور میں گھر میں امی اور چاچی کا ہاتھ بٹانے
لگےمیرا منگتیر عمیر مجھ سے دو سال بڑآ ٹھا اور شہر کالج میں
پڑھتا اور ہاسٹل میں
رہتا تھا ۔ میرے دو بڑے بھائی جمال خان اور کمال خان بھی اسی کالج میں پڑھتے اور
ہاسٹل میں رہتے تھے ۔
اب دادا جان کو میری
شادی کی فکر لگ گئی ۔مگر میرے منگتیر کا خیال تھا کہ وہ پہلے تعلیم مکمل کرلے ۔ اس
لئے اس نے اپنے والدین کے ذریعے 4 سال کا وقت لے لیا اور
پڑھائی میں مصروف ہوگیا
۔مگر ہونی کو کون ٹال سکا ہے. ابھی دو سال ہی گزرے تھے کہ دادا جان کا انتقال
ہوگیا ۔ اور جائیداد کی تقسیم پر میرے ابو اور چچاجان میں جھگڑا
اسقدر بڑھا کہ مکانوں
کے بیچ دیوار اٹھادی گئی اور بول چال بند ہوگئی . میں اسوقت 22 سال کی ہوچکی
تھی۔میرے والدین کو امید تھی کہ کچھ بھی ہوجائے میرے اور عمیر
کے متعلق دادا جان کی
بات نبھائی جائے گی ۔ اس لیے میں عمیر کی منگتیر ہی رہی ۔ چاچا جان کے گھر والے
کیا سوچ رہے تھے ہمیں بلکل معلوم نہیں تھا ۔ میرے والد
صاحب سخت طبعیت مگر دل
کے نرم اور چچاجان تو بہت ضدی مشہور ہیں ۔
خیر عمیر نے جب اپنی تعلیم
مکمل کی اسوقت میں 24 سال ہوچکی تھی ۔ عمیر یونیورسٹی سے جب تعلیم مکمل کرکے واپس
گھر آیا تو میرے والدین کو امید تھی کہ اب وہ لوگ
شادی کی بات کرینگے اس
لیے میرے والدین نے شادی کی تیاری شروع کردی مگر ایک دن ہم لوگوں نے سنا کہ عمیر
کی تو اگلے ماہ پھپھو کی بیٹی سے شادی ہورہی ہے تو ہم
لوگوں نے چپ سادھ لی ۔
میرے والد ین نے سوچا کہ ہماری بھانجی بھی تو ہماری ہی بیٹی ہے اب ان سے کیا گلہ
کریں ۔ انہوں نے اب میرا رشتہ تلاش کرنا شروع کردیا ۔ ابا
چاہتے تھے بھلے میری
شادی عمیر کی شادی کیساتھ نہ ہوسکے تو کچھ عرصہ کے بعد ہوجائے ۔منڈی میں میرے والد
کی آڑھت کیساتھ ایک اور آڑھتی جوکہ اچھے کاروباری تھے
کیساتھ ابا نے میرے
متعلق بات کی ۔ ان کے دوبیٹے تھے بڑا بیٹا 39 سال کا اور رنڈوا تھا اسکی ایک بیٹی
بھی تھی ۔وہ شریف آدمی شیر بہادر اسکا رشتہ لیکر آگیا ۔ میرے
والدین نے اس رشتہ کے
لیے انکار کردیا کیونکہ ایک تو وہ عمر میں بڑادوسرا ایک بیٹی کا والد بھی تھا۔ مگر
میں انکی وائف کو پسند آگئی تھی اس لیے ایک ہفتہ بعد وہ لوگ دوبارہ
اپنے چھوٹے بیٹے جو کہ
27 سال کا تھا ور دوبئی میں ہوتا تھا کے لیے رشتہ مانگنے آگئے ۔میرے والدین نے
سوچنے کے لئے وقت مانگ لیا ۔ کیونکہ انکی رہائش شہر سے باہر
گاؤں میں تھی ۔معلومات
حاصل کرنے میں دوہفتہ لگ گئے ۔ انکی ریپوٹیشن اچھی تھی ۔ دو مربعہ زمین کے علاوہ
آڑھت کااچھا کاروبار تھا ۔ ایک ہی بیٹی سمیرا جو کہ بیاہی جاچکی
تھی ۔بڑے بیٹے سمیر کی
ایک بیٹی اریبہ ہے ۔ تین سال پہلے سمیر کی بیوی فوت ہوگئی تھی اور اریبہ اب آتھ
سال کی ہے ۔ چھوٹا بیٹا صیغیر 27 سال کا ہے اور دوبئی میں
ملازم۔ہے ۔میرے والدین
کو یہ لوگ کھاتے بیتے اچھا خاندان لگا اور رشتہ کے لیے ہاں کردی دو ماہ بعد میں
صغیر حسن سے بیاہ دی گئی۔ اور دوماہ چھٹی گزار کر وہ دوبئی واپس چلے گئے
ماہ کے بعد میرے شوہر
واپس اپنے کام پر دوبئی چلے گئے اور میں ایک ماہ کے لئے اپنے میکے آگئی ۔
ایک ماہ گزرنے کا پتہ
ہی نہ چلا۔ ایک ماہ بعد میں اپنی سسرال واپس پہنچ گئی ۔ جہاں پر ساس سسر ،میرے
جیٹھ اور اسکی آٹھ سالہ
بیٹی اریبہ کیساتھ ہی مجھے رہنا تھا ۔ جب تک میرے شوہر گھر پر تھے اسوقت
مصروفیات اور مشاغل اور
تھے جن میں دل لگارہتا تھا ۔مگر اب ایک سی روٹین تھی ۔ شکر ہے کہ اریبہ کو
گرمیوں کی تعطیلات تھیں
جس کی وجہ سے گھر میں کچھ رونق اور مصروفیت تھی اریبہ بہت پیاری اور
خوبصورت بچی ہے جس کی
ماں نہیں رہی اور اسکو دیکھ کر پیار آجاتا ہے ۔وہ بہت معصومانہ شرارتیں
کرتی جن سے بہت مزہ آتا
ہے ۔اریبہ مجھ سے بہت گھل مل گئی اور مجھے بھی اس بن ماں کی بچی سے
انس ہوگیا ہے . میری
کوشش ہوتی کہ اریبہ کو ماں کی کمی محسوس نہ ہو۔ اریبہ کو اپنے ابو سے بہت لگاؤ
تھا اور وہ بھی اریبہ
سے بے انتہا پیار کرتے تھے ۔ دونوں باپ بیٹی یک جان دوقالب والی بات تھے سچ
پوچھیں تو مجھے دونوں
باپ بیٹی کا پیار دیکھ کر ان پر رشک آتا ہے ۔ہمارے گھر کا ماحول بہت سخت تھا ۔
میرے ابو نے مجھے کبھی
ایسے پیار نہیں کیا تھا جیسے اریبہ کے ابو اس سے کرتے تھے ۔ کبھی کبھی تو
مجھے اریبہ سے حسد
محسوس ہوتا کیونکہ مجھے یاد آجاتا کہ جب میں چھوٹی تھی تو دل کرتا تھا کہ اپنے ابو
کی گود میں بیٹھوں انکے
سینے پر چڑھ کر کھیلوں ۔ ۔۔۔۔۔
اریبہ کا تو روز کا
معمول تھا کہ وہ صبح ناشتہ اپنے ابو کی گود میں بیٹھ کر کرتی اور شام کو جب اسکے
ابو
صحن میں چارپائی پر
لیٹے ہوتے تو انکے سینے پر چڑھ کر کھیلنا ۔ گرمیوں کے موسم میں اسکے ابو صحن
میں چارپائی ڈال
کرتہمند باندھے اور اوپر کے حصہ میں بغیر کچھ پہنے لیٹے ہوتے تو اریبہ انکے سینے کے
بالوں سے کھیلتی کبھی
انکی مونچھ پکڑ لیتی تو اس کے ابو کھلکھلا کر ہنستے رہتے ۔ ویسے بھی انکی
طبعیت ہنس مکھ تھی.
مسکراہٹ ہروقت انکے چہرے پر سجی رہتی. میرے خاوند چھوٹے قد کے سنجیدہ طبعیت
کے مالک ہیں جبکہ ان کے
بڑے بھائی دراز قد کشادہ پیشانی کشادہ چھاتی اور مضبوط جسم کے مالک ہیں
جب میں انکو اپنی بیٹی
کیساتھ کھیلتا دیکھتی تو سوچتی کے انکا بھی رشتہ میرے لئے آیا تھا کیا تھا جو
ہماری
عمروں میں فرق تھا وہ
مجھ سے چودہ سال بڑے ہیں تو کیا ؛ رہتے تو پاس ہی ؛ ہم اریبہ سے ملکر بھی کھیل
سکتے تھے ۔ مگر میرے
شوہر دوسال بڑے تو ہیں اور اپنی جوانی اب امارات میں گنوارہے ہیں اور میں یہاں
انکو یاد کرکے ٹھنڈی
آہیں بھررہی ہوں. خیر جو ہونا تھا ہوچکا تھا۔۔۔۔۔
میری ساس بہت نرم طبعیت
کی ہیں اور مجھ سے تو ہمیشہ پیار ہی کیا انہوں نے ۔ سسر ہفتہ میں دوہی راتیں
گھر پر گزارتے باقی دن
آڑھت پر رہتے ۔ میرے جیٹھ سمیر خان صبح سویرے کھیتوں میں چلے جاتے وہاں
مزارعوں سے کام لیتے
اور انکے کام کی نگرانی کرتے. دوپہر کا کھانا گھر پر ہی کھاتے ۔ کھانا کھاکر
بیٹھک میں اہنے دوستوں
سے ملکر تاش کھیلنے لگ جاتے ۔اور شام کو ایک چکر پھر زمینوں کا لگاتے اور
شام ہوتے ہی گھر آجاتے
۔ گھر میں ایک خادمہ تھی جو کہ صفائی ستھرائی کاکام کرتی اور مجھے صرف کھانا
پکانا ہوتا تھا. باقی
سارے کام خادمہ سرانجام دیتی ۔ اریبہ کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد جب سکول کھلے تو
معمول کچھ تبدیل ہوگیا
اب صبح اریبہ کو ناشتہ کرواکر اسکے ابو کیساتھ سکول بھیجنا شام کو اسکی ہوم ورک
میں مدد کرنا شامل
ہوگیا ۔ یہ روزانہ کا معمول تھا. دن تو جیسے تیسے گزر جاتا مگر رات کو جب چارپائی
پر
لیٹتی تو خیالات میں
پتہ نہیں کہاں کہاں بھٹک جاتی ۔ صغیر کو گئے ہوئے چارماہ ہوچکے تھے اور اب اسکی
کمی محسوس ہونے لگی
تھی. گھر میں اب کچھ تبدیلی سی محسوس ہونے لگی تھی یا پھر مجھے محسوس ہوتی
تھی جب میں بیاہ کر آئی
تھی تو اجنبیت کا احساس تھا ساسو ماں تو شروع سے ہی مہربان تھیں ۔ مگر میرے
جیٹھ پہلے مجھ سے بہت
کم مخاطب ہوتے تھے کوئی ضروری کام ہوتا تو بات کرتے یا پھر جب اریبہ کوئی
ضد کررہی ہوتی تو مدد
کے لیے کہتے ۔ مگر اب وہ مسکرانےبھی لگے تھے اور میرے پکے پکوان کی
تعریف بھی کردیتے تھے ۔
سسر تو ہفتہ میں دودن ہی آتے تھے اور انکا ریویہ مشفقانہ ہی ہوتا. اریبہ سے
میری پکی دوستی ہوچکی
ہے ۔ کہنے کا مطلب یہ کہ اب میں خود کو اس گھر کا فرد محسوس کرنے لگی ہوں
۔اب
بھی میکے کی یاد آتی ہے مگر اس کی شدت میں کمی آچکی ہے
گھر میں اریبہ کی وجہ
سے کافی رونق تھی ۔ چونکہ وہ سب کی لاڈلی تھی اور اس کی شرارتوں سے سب لطف اندوز
ہوتے تھے ۔ ابھی وہ آٹھ
سال کی تھی اور اس کو زیادہ سمجھ نہیں تھی کہ کیا بات کرنی ہے اور کیا نہیں کرنی.
ایک
بار وہ اپنے ابو سے
ناراض ہوکر میرے کمرے میں آگئی( وہ اکثر اپنے ابو سے روٹھ کر میرے ہی پاس آتی) اور
اپنے
ابو کی شکایت لگانے
لگی. میں نے اس کا دل صاف کرنے کی غرض سے اس کے ابو کی تعریف کردی ۔ کہ دیکھو
بیٹی وہ تو بہت اچھے
ہیں تم سے پیار کرتے ہیں ۔ تم کو اپنی گود میں بٹھاکر اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتے
ہیں تمہاری
ہربات مانتے ہیں ۔ ایسے
ناز اٹھانے والے ابو توکسی کسی کو ملتے ہیں ۔ تو وہ پوچھنے لگی کہ آنٹی آپ کے ابو
کیا
آپ کو گود میں نہیں
بٹھاتے تھے تو میں نے کہا کہ نہیں وہ ایسا نہیں کرتے تھے ۔ تھوڑی دیر بعد اس کے
ابو آئے اور
وہ ان کے ساتھ سونے کے
لیے چلی گئی ۔ وہ اپنے ابو کے کمرے میں ہی سوتی تھی ۔
اگلی صبح جب میں دونوں
باپ بیٹی کا ناشتہ لیکر ان کے کمرے میں گئی تو اریبہ اپنے والد کی گود میں بیٹھی
سوال و
جواب کررہی تھی ۔ مجھے
دیکھتے ہی اریبہ کھڑی ہوگئی اور میِں نے ناشتہ ٹیبل پر رکھ دیا۔ اریبہ مجھ سے پو
چھنے
لگی آنٹی آپ کے ابو آپ
کو گود میں نہیں بٹھاتے تھے ناں۔۔۔ میں نے بات ٹالنے کی کوشش کی اور کہا بیٹی ، آؤ
ناشتہ
کرلو پھر سکول کی بھی
تیاری کرنی ہے ۔ مگر اس نے پھر وہی تکرارکی اور کہنے لگی آنٹی آپ آج میرے ابو کی
گود میں بیٹھ جاؤ ۔ میں
یہ سن کر ہکا بکا ہوگئی اس کے ابو نے جلدی سے کہا اریبہ کیا اول فول بک رہی ہو مگر
اریبہ کے سرپر یہی دھن
سوار تھی اس نے مجھے اپنے ننھے ہاتھوں سے کرسی کی طرف دھکیلنا شروع کردیا مگر
میں اس کو پکڑتی اور
ادھر ادھر ہوجاتی ۔ وہ پھر میرے گھٹنوں کو دبادیتی ۔ اس کشمکش میں میرا پاؤں میز
کے پایا
سے ٹکرا گیا اور میں
لڑکھڑا گئی اور سیدھی سمیر بھائی کی آغوش میں جاگری ۔ انہوں مجھے سنبھالا تو انکا
ایک
ہاتھ میری کمر پر ایک
میرے ابھاروں پرجا ٹکا۔ میں نے سمیر بھائی کیطرف دیکھا تو انکی نگاہیں مجھ پر جمی
ہوئی
تھیں ۔ میں جلدی سے
اٹھی اور روہانسی ہوکر کمرے سے نکل گئی اور اپنے کمرے میں جاکر چارپائی پر گرگئی۔
میرے دل کی دھڑکن بہت
تیز ہوچکی تھی اور جسم کانپ رہا تھا ۔ سارا جسم پسینہ پسینہ ہورہا تھا ۔ میں کچھ
دیر لیٹی
رہی کچھ حواس بحال ہوئے
تو اٹھ کر بیٹھ گئی اور سوچنے لگی کہ یہ کیا ہوگیا ۔ اریبہ تو بچی تھی بچے ضد تو
کرتے
ہی ہیں ۔ غلطی کسی کی
بھی نہیں تھی. مگر جو ہوا وہ نہیں ہونا چاہیے تھا. میں اب اریبہ کے ابو کا کیسے
سامنا
کرونگی. انکا خیال آتے
ہی مجھے ان کے ہاتھوں کالمس اپنی کمر اور ممے پر محسوس ہونے لگا ۔ انہوں نے جب
مجھے اپنے بازوؤں میں
تھاما تھا تو مجھے انکی آنکھوں میں حیرانگی اور ستائشی جذبات نظر آئے تھے. میں یہ
سوچ
کر شرماگئی اتنے میں
اریبہ آگئی اسکو سکول کے لیے تیار کیا اور وہ تیار ہوکر اپنے ابو کیساتھ سکول چلی
گئی ۔
میں نے اپنی ساس جن کو
میں اماں کہتی ہوں کو ناشتہ دیا وہ ناشتہ کرکے پھر سوجاتی ہیں اور دوبارہ ظہر سے
پہلے
اٹھتی ہیں۔اماں کو
ناشتہ کروانے کے بعد میں نے اپنے اور اریبہ کے ابو کے لئےچائے کا پانی چولہے پر
چڑھادیا ۔
کیونکہ وہ اریبہ کو
سکول چھوڑنے کے بعد آکر چائے کا کپ لیتے تھے۔ حسب معمول وہ اریبہ کو سکول چھوڑنے
کے بعد گھر آکر غسل سے
فارغ ہوکر کچن میں آگئے ۔ میں نے جھکی ہوئی نظروں سے انکو چائے کا کپ پکڑایا اور
کہا بھائی جان کچن کا سودا
سلف بھی منگوانے والاہے ۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے مجھے لسٹ بنادو میں شہر جاکر لے
آتا ہوں ۔ میں نےلسٹ
تیار کی تھوڑی دیر بعد انکو لسٹ پکڑادی اور وہ شہر چلے گئے ۔ شہر جانے کے لئے وہ
موٹر
سائیکل استعمال کرتے
تھے. میں نے سکون کا سانس لیا ایک مشکل مرحلہ تھا جو میں نے عبور کیا. صبح سے یہ
سوچ سوچ کر پاگل ہو رہی
تھی کہ اب اریبہ کے ابو کا سامنا کیسے کرونگی مگر اب میں نے ہمت سے کام لیکر انکو
کام بھی بول دیا ۔ وہ
شہر سے واپسی پر کھتیوں میں نہیں گئے ۔ میں دوپہر کا کھانا بنا چکی تھی ۔ خادمہ کو
کہیں کام
تھا وہ چھٹی لیکر چلی
گئی تھی. میں نے ان سے پوچھا بھائی جان کھانا لے آؤں تو انہوں نے کہا لے آؤ اور
اپنے
کمرے میں چلے گئے ۔ میں
نے کھانا لے جاکر انکی ٹیبل پر رکھ دیا اچانک انہوں نے میرا ہاتھ پکڑلیا . میں نے
گھبرا کر انکی طرف
دیکھا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے مجھے اپنی طرف کھینچا تو میں ڈگمگا گئی اور انکی
آغوش
میں جاگری ۔ مجھے بہت
شدید غصہ آیا اور میں نے ایک جھٹکے سے اپنا آپ چھڑایا اور بھائی جان یہ کیسی بے
ہودگی ہے کہتے ہوئے
دوڑتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی اور چارپائی پر اوندھے منہ گر کر رونے لگی ۔۔
مجھے بہت غصہ آرہا تھا
کہ انہوں مجھے کیا سمجھ کر ایسی گری ہوئی حرکت کی. مجھے رونا بھی آرہا تھا اور غصہ
بھی ۔ میں اونچا اونچا
رونے لگی شکر ہے میری ساس سوئی ہوئی تھی اور خادمہ پہلے سے ہی چلے گئی تھی ورنہ
انہوں نے میرے رونے کی
آواز ضرور ان کو سنائی دیتی ۔۔ پتہ نہیں کتنا ٹائم گزرا ۔ میرا رونا اب سسکیوں میں
ڈھل
چکا تھا ۔ رونے سے کافی
سکون ملا۔دفعتا میں نے اپنے شانوں پر کسی کا ہاتھ ٹکتا محسوس کیا میرا سارا جسم
کانپ
گیا مجھے ایک جھرجھری
سی
میں نے اپنے شانوں پر
کسی کا ہاتھ ٹکا محسوس کیا اور میرا بدن کانپ گیا ۔ مجھے جھر جھری سی آگئی اسی
کے ساتھ وہ ہاتھ میرے
شانوں پر سے ہٹ گیا۔انیلہ پلیز مجھے معاف کردو۔ مجھ سے غلطی ہوگئی ۔ سمیر کی آواز
سن کر مجھے اور غصہ اور رونا آگیا ۔
غصہ اس لیے کہ جیسا بھی
ہو میں اس کے چھوٹے بھائی کی بیوی ہوں ۔ اس کو ہمت کیسے ہوئی میرا ہاتھ پکڑنے کی ۔
میں اسکو بھائی جان کہ کر مخاطب کرتی ہوں ۔
اریبہ کیساتھ ملکر ہنسی
مزاق کرنا اور بات ہے اور مجھ پر
اکیلے میں حملہ کرنے کا
مجھے بہت رنج والم ہورہا تھا
انیلہ دہکھو میں ہاتھ
جوڑ کر معافی مانگ رہا ہوں ۔ مجھے پتہ نہیں کیا ہوگیا تھا ۔ میں وعدہ کرتا ہوں
آئندہ ایسا
نہیں ہوگا ۔ تم ایک بہت
اچھی لڑکی ہو میرے دل میں
تمہارے لئے بہت احترام
ہے ۔ دیکھو پلیز اب تو مجھے معاف کردو یہ کہتے ہوئے ان کے ہاتھوں نے میرے
پاؤں پکڑ لئے ۔میں نے
تڑپ کر اپنے پاؤں کھینچ لئے اور ان سے کہا پلیز آپ جائیں یہاں سے ۔مجھے تنہا چھوڑ
دیں ۔ انہوں نے جواب دیا میں اس وقت تک نہیں جاؤنگا
جب تک تم مجھے معاف
نہیں کروگی ۔ یہ کہ کر انہوں نے
میرے سر پر ہاتھ رکھا
اور بالوں میں انگلیاں پھیرنی شروع کردیں ۔میں نے ان کا ہاتھ جھٹک دیا اور ان سے
جانے کو کہا ساتھ ہی
میری سسکیاں اور اونچی ہوگئیں ۔مگر انہوں نے پھر میرے پاؤں پکڑلئے ۔ مجھے ان کا
بار بار پاؤں چھونا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ وہ برابر منت کئے
جارہے تھے. میں چاہتی
تھی کہ وہ جائیں وہاں سے. جو
ہونا تھا وہ ہوچکا تھا
۔ معافی تلافی سے کیا ہوگا ۔ مگر انہوں نے میرے پاؤں پر اپنا سر رکھ دیا ۔ میں تو
اوندھی لیٹی ہوئی تھی ۔
میں تڑپ کر اٹھی اور بھائی جان یہ آپ کیا کررہے ہیں کہ کر انکا سر اٹھایا ۔ وہ
چارہائی پر میرے برابر ہی بیٹھ گئے اور ہاتھ جوڑتے ہوئے پھر
معافی کی گردان شروع
کردی ۔ انکے اس طرح معافی
مانگنےسے مجھے اور بھی
رونا آگیا ۔ میں اور اونچا اونچا رونے لگی ۔ مجھے یوں بلکتے دیکھ کر انہوں نے
میرا چہرہ اہنے ہاتھوں
میں تھام لیا ۔ میری آنکھیں بند تھیں
اور گال آنسوؤں سے تر
ہوچکے تھے انہوں نے میری بھیگی اور بند آنکھ پر اپنے لب رکھ دئیے میرے سارے
بدن میں بجلی سی کوند
گئی ۔ عجیب سا احساس ہونے لگا ۔
انہوں نے یہی عمل دوسری
آنکھ پر بھی کیا ۔ میں پگھل کر رہ گئی ۔ میں نے محسوس کیا میں ہاررہی ہوں
میرے ہونٹ ادھ کھلے سے
ہوگئے جیسے وہ بھی اس کے
ہونٹوں کے پیاسے ہوں ۔
میں اس طرح کبھی بے بس نہیں ہوئی تھی۔ شکر ہے اس نے میرے ہونٹوں کی طرف
دھیان نہیں کیا ورنہ ڈر
تھا کہیں میں بھی انہیں جواب میں
چومنے لگتی۔ میں نے انہیں
دیکھا تو مجھے انکی آنکھوں میں بھی نمی نظر آئی ۔ میں نے روتے ہوئے انکے
شانوں پر اہنا سر رکھ
دیا اور میری ہچکیاں بندھ گئیں ۔ انکا
ہاتھ میری کمر پر آیا
اور انہوں نے مجھے بھینچ کر اپنے سینے سے لگالیا ۔ میں کتنی ہی دیر بے بے خود
ہوکر انکے سینے سے لگی
رہی ۔ احساس ہونے پر ان سے الگ ہوئی ۔ انہوں نے پھر میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں
تھام لیا اور میری طرف دیکھ کر مسکرائے تو میں نے جلدی
سے اپنا چہرہ ان کے
ہاتھوں سے چھڑایا اور کہا کھلے
ہوئے دروازے کطرف
دیکھتے ہوئے ان سے کہا بھائی جان اب آپ جائیں کسی نے دیکھ لیا تو طوفان آجائے گا۔
تم نے مجھے معاف کروگی
تو میں جاؤنگا۔ میں نے ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا کہ میں نے آپ کو
معاف کیا ۔ اب آئندہ
ایسی حرکت نہ ہو تو انہوں نے میرا ہاتھاپنے ہاتھ میں پکڑ کر پرامس کیا کہ آئندہ
ایسی حرکت نہیں ہوگی۔ اور میری پیشانی پر بوسہ دیکر کمرے سے
چلے گئے ۔میں پریشان سی
ہوکر سوچنے لگی آج صبح سے یہ کیا ہونے لگا ہے ۔۔۔۔ خیر میں اٹھی اور اماں کو ظہر
کی
علی*
کے لئے وضوکروایا اورخود بھی وضو کرکے علی* ادا
کی ۔ اریبہ کے سکول سے
آنے کا انتظار کرنے لگی. اریبہ کے سکول سے آنے پر کھانا کھایا ۔ کھانے کے
بعد اسکو کچھ ٹائم
کھیلنے کے لئے دیا ۔ پھر اسکو ہوم ورک پر لگاکر شام کے کھانے کی تیاری میں مشغول
ہوگئی ۔ رات کو کھانا کھاکر سونے سے پہلے اپنی ساسو ماں
کے پاؤں دبائے اور
دعائیں لیتی ہوئی اپنے کمرے میں سونے کے لئے آگئی ۔ رات کو سونے کے لئے میں ہلکا
لباس استعمال کرتی ہوں ۔ ایک سوتی ٹراؤزر اور اوپر ایک
ہاف بازو کرتہ نما شرٹ
۔۔ اپنے آپ کو اس طرح آئینے میں دیکھنا اچھا لگتا ہے اس لئے تو کہتی ہوں مجھے کسی
اور سے نہیں خود سے محبت ہے ۔ رات کو برا اور
پینٹی نہیں پہنتی ۔
البتہ سوتے ہوئے اوپر کوئی کپڑا اوڈھ لیتی
ہوں ۔ ۔ بستر پر دراز
ہوکر خیالوں میں کھوگئی ۔ آج دن کا آغاز ہی ایسا ہوا تھا کہ ہربات ناقابل یقین
لگتی
تھی. مگر یہ حقیقت میں
واقعات ہوچکے تھے ۔ پہلے اریبہ کی وجہ سے میرا لڑکھڑانا سمیر بھائی کا مجھے
سنبھالنا پھر سمیر بھائی کا مجھ بازو سے پکڑ کر اپنی گود میں
گرانے کی کوشش کرنا ۔
یہ معمولی واقعات نہیں تھے جن کو نظر انداز کیا جاتا ۔ یہ حقیقت ہے میری کئی کلاس
فیلوز ہائی سکول میں ہی محبت کے چکر میں مبتلا ہوچکی
تھیں. مگر میں اس بیماری
کے وائرس سے محفوظ ہی رہی تھی. حتی کہ شادی کے بعد بھی میرا دل کسی کے لئے نہ
دھڑکا تھا۔ شادی فریضہ سمجھ کر والدین کی
رضامندی کی خاطر ہوئی
جس کا نہ ہی شوق تھا اور ناہی چاہت
تھی ۔ سہاگ رات کے بارے
بہت کچھ کہاجاتا ہے میں نے اسکو بھی ایک مشکل وقت سمجھ کر برداشت کیا
خاوند کیساتھ زیادہ
فرینکنس نہ ہوسکی نہ وہ زیادہ دلچسپی
دکھاتے ۔ سیکس ہم کرتے
تھے مگر مجھے اس میں کوئی خاص چارم محسوس نہ ہوتا ۔ میں سوچتی کہ شاید
میں ٹھنڈی عورتوں میں
سے ہوں ۔خاوند بھی جیسے کوئی
مجبوری نبھارہے ہوتے
محسوس ہوتے ۔ سچ تو یہ ہے کہ میرا دل آج تک کسی کے نام پر نہ دھڑکا تھا مگر آج
صبح گرتے ہوئے جب سمیر
بھائی نے مجھے سنبھالنے کی کوشش کی تو انکے ہاتھ لگتے ہی میرے جسم میں ایک کرنٹ
ساڈوڑتا محسوس ہوا اور کافی دیر تک مجھے
بدن کے ان حصوں پر انکا
لمس محسوس ہوتا رہا جہاں جہاں
وہ لگے تھے ۔ پھر دوپہر
کو جب سمیر بھائی منانے آئے اور جب انہوں نے میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا تو
یوں محسوس ہوا جیسے کسی
اپنے نے ہمدردی سے مجھے چھو لیا ہو ۔ پھر سمیر بھائی کا باری باری میری آنکھوں کو
چومنا اور میرے آنسو پی جانا مجھے بہت خوار
کرگیا مجھے محسوس ہوا
کہ انیلہ تو " تو لگی گئی " میں
چاہتی تھی وہ مجھے چومے
مجھے گلے سے لگا کر میرا سارا درد ' کرب سارا غصہ اپنے اندر منتقل کرلے
کرلے ۔
میں خود اس کے گلے لگ
جاتی دل تو کررہا تھا کہ اپنے آنسوؤں سے گیلے ہوئے اس کے ہونٹ اہنے ہونٹوں میں
لیکر انکا ذائقہ چکھوں ۔ مگر میں سمیر کو کمرے سے
جانے کا کہ کر اپنا
بھرم رکھنے میں کامیاب ہوگئی تھی
۔
میں سمجھنے لگی ہوں کہ میرا دل سمیر بھائی پر مائل ہونے لگا ہے اور یہ پہلی بار
میرے ساتھ ایسا ہواورنہ
انیلہ کب کسی کی پروا
کرنے والی تھی نیند میں جانے سے پہلے میں نے کئی بار اپنی آنکھوں کو چھوا جن پر
سمیر بھائی نے اپنے بوسے ثبت کئے تھے ۔حسب معمول صبح اٹھ کر اماں کو وضوا کرواکر
خود بھی علی* ادا کی ۔اس کے بعد کچن میں آگئی اور ناشتہ
تیار کرنے لگی۔ سمیر
بھائی صبح کی سیر سے واپس آکر
غسل کرنے لگے. اتنے میں
اریبہ بھی جاگ گئی میں ناشتہ تیار کرچکی تھی اریبہ کو سکول کے لئے تیارکیا
اتنے سمیر بھائی غسل سے
فارغ ہوگئے میں ناشتہ لیکر ان
کے کمرے میں گئی تو
مجھے کل والی واردت یاد آگئی ۔ میں نے چور نظروں سے سمیر بھائی کی طرف
دیکھا تو وہ میری ہی
طرف دیکھ رہے تھے ۔ ان کی آنکھوں میں کچھ ایسا تھا کہ ایک دفعہ تو میں ڈگمگاگئی
مگر پھر سنبھل کر ناشتہ کی ٹرے میز پر رکھنے کامیاب ہوگئی
مگر اریبہ پھر اپنے
والد کی گود سے اتر کر کھڑی ہوگئی کہ
آنٹی کل تو آپ میرے ابو
کی گود میں نہیں بٹھیں تھی آج تو آپ کو ضروور بٹھاؤنگی ۔ اف یہ افتاد میں نے بے
چارگی سے سمیر بھائی کو
دیکھا تو انکو مسکراتے پایا
اس سے پہلے کہ مجھے غصہ
آتا انہوں نے چارپائی سے ایک تکیہ اٹھا کر گود میں رکھ لیا اور کہنے لگے کہ
انیلہ تم تھوڑی دیر کو
اس تکیہ پر بیٹھ جاؤ تاکہ اریبہ کی ضد پوری ہو جائے میں نے بناوٹی غصہ والا چہرہ
بنایا اور سمیر بھائی کی گود میں کرسی پر اس طرح بیٹھ
گئی جیسے عورتیں
موٹرسائیکل پر پیچھے ایک طرف ٹانگیں کرکے بیٹھتی ہیں ۔ چونکہ میرے نیچے تکیہ تھا
اور میں کرسی کے ہتھے سے کچھ اونچی تھی سمیر بھاٰئی
کے ہاتھ میرے کندھوں کو
چھو رہے تھے اور انکا منہ میرے
ابھاروں کے برابر آرہا
تھا اور مجھے انکی سانسوں کی گرم ہوا محسوس ہورہی تھی ۔ ایک یا دو منٹ بیٹھ کر
میں اٹھ گئی۔ اور اریبہ
کو اپنے ابو کی گود میں بٹھاکر
کمرے سے نکل آئی میں
پریشان ہونے لگی کہ یہ روز کا گود میں بیٹھنا اچھی بات نہیں اریبہ بچی ہے کبھی
کسی سے ذکر کردیا تو
پھر کیا عزت رہ جائیگی ۔میں نے
سوچا دوپہر کو کھانا
دینے جاؤنگی تو سمیر بھائی سے بات کرونگی ۔ کل سمیر بھائی آپ نے پرامس کیا تھا کہ
کوئی غلط قدم نہیں
اٹھائینگے ۔ مگر آج میں چاہتی تھی کہ سمیر بھائی اپنا پرامس پورا نہ کریں ۔ دوپہر
کو کھانا دینے گئی تو سمیر بھائی اسی کرسی پر براجمان اخبار
پڑھ رہے تھے میں ہولے
سے کھانسی تو وہ سیدھا ہوکر بیٹھ گئے کل جب سے وہ معافی مانگ کر آئے تھے تو ہم
دونوں کی تنہائی میں پہلی ملاقات تھی میں نے کھانا رکھا
اور کھڑی ہوگئی انہوں
نے ٹرے اہنے سامنے کی تو میں
نے پوچھا ۔۔ جناب جاؤں
یا آپ نے ہاتھ پکڑ کر اپنی آغوش میں بٹھانا ہے یہ سن کر سمیر بھائی حیران ششدر
ہوگئے ۔ ان کا چہرہ فق
ہوگیا اور ہلکلاتے ہوئے بولے. انیلہ میں نے معافی مانگ لی تھی ۔ مگر میں نے تو
حضور معاف نہیں کیا. یہ کہتے ہوئے میں اچانک کر انکی
گود میں بیٹھ گئی ۔
انکی حالت دیکھنے والی تھی. اور مجھ
میں نجانے کہاں سے انکو
ستانے کی ہمت آگئی ۔ پھر ان سے فرمائش کی اپنی لاڈلی بھرجائی کو کھانا نہیں
کھلاؤگے ۔ تو جلدی سے ایک نوالہ بناکر میرے منہ میں ڈالتے ہوئے کہنے لگے. زہے
نصیب. میں نے بھی ایک نوالہ بنایا اور انکے منہ میں ڈال دیا ۔ اب مرد آخر مرد ہوتا
ہے میری تھوڑی سی حوصلہ
افزائی سے وہ مجھے جہاں وہاں ٹچ کرنے لگے ۔ اتنے تک مجھے محسوس ہوا کہ انکا ناگ سر
اٹھانے لگا ہے ۔ تو میں جان بوجھ کر
اچھل کر کھڑی ہوگئی اور
انکی شلوار کی اٹھان کی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی کہ یہ کیا سمیر بھائی آپکی تو نیت
خراب دکھتی ہے وہ شرمندہ سے ہوئے اور میں کمرے
سے نکل گئی ۔ پہلے تو
خالی برتن خادمہ لےآتی تھی مگر
آج میں کچھ دیر بعد
برتن اٹھانے گئی تو سمیر بھائی چارپائی پر لیٹے سگریٹ کے کش لگارہے تھے ۔ وہ
کھانے کے بعد ایک یا دو
سگریٹ پیتے ہیں یہ تو مجھے معلوم
تھا اس لئیے مجھے کوئی
حیرانگی نہیں ہوئی ۔ مگر سمیر بھائی مجھے دوبارہ دیکھ کر حیران ہوئے ۔ میں اسی
کرسی پر بیٹھ گئی جس
کرسی پر بیٹھ کر وہ کھانا کھارہے تھے ۔ میں نے ان سے کہا سمیر بھائی آپکی گود میں
بیٹھ کر آپکی خواہش پوری کردی ۔ یہ اریبہ کے کہنے پر
روز آپکی گود میں
بیٹھنا مجھے برا نہیں لگے گا مگر یہ
اریبہ کے لئے غلط مثال
بن جائیگا ۔ اریبہ بچی ہے مگر آپکی گود میں میرا بیٹھنا اسکی یاداشتوں میں رہ بھی
سکتا ہے ہوسکتا ہے یہ
سب کچھ اسکی ضد کا نتیجہ تھا یہ اسکو یاد نہ رہے ۔مگر میرا آپکی گود میں بیٹھنا
اسکو یاد رہے گا اور جوان ہوکر وہ پتہ نہیں ہمارے بارے کیا
سوچے اس لئے آپ بھی اسے
سمجھائیں اور میں بھی اسے سمجھاؤنگی ۔ وہ بولے ٹھیک کہ رہی ہو ہمیں اریبہ کو
سمجھانا ہوگا ۔ میں نے کہا کہ میرے خیال میں آپ اپنے
کمرے میں ناشتہ کرنے کی
بجائے کچن میں ناشتہ کریں
وہاں کافی کرسیاں ہیں
بیٹھنے کے لئے ۔ ٹھیک ہے انیلہ کل سے ہم کچن میں ہی ناشتہ کرینگے مگر ایک
شرط پر جی بولیں کونسی
شرط میں نے پوچھا تو کہنے لگے تم ہمارے ساتھ کچن میں ناشتہ کروگی. اٹس اوکے
نوپرابلم ڈن میں نے کہا ۔ ٹھیک ہے کل سے ناشتہ کچن میں
۔۔
میں اٹھنے لگی تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا ۔ تو میں
نے انہیں اپنا پرامس
یاد دلایا تو کہنے لگے کل تمہارا غصہ دیکھ کر ڈرگیا تھا اور آج تو تمہیں دیکھ کر
پیار
آرہا ہے ۔ اچھا جی یہ
پیار سنبھال کر رکھو مجھے ضرورت نہیں یہ کہ کر میں ہاتھ چھڑانے لگی مگر انہوں نے
ہاتھ بڑی مضبوطی سے پکڑرکھا تھا میں پورا زور لگانے
لگی تو انہوں نے ایک ہی
جھٹکے کیساتھ مجھے اپنے اوپر گرالیا اب میں انکے سینے پر گری ہوئی تھی اور میرا
نچلا حصہ چارپائی سے نیچے تھا انہوں نے مجھے
بھینچ لیا اور میرے گال
پر بوسہ دیا تو میں بولی ۔۔ سمیر بھائی مجھے جانے دیں کوئی آجائے گا تو انہوں نے
ہاتھ ڈھیلا کیا تو میں نے ہاتھ کھینچا اور تیزی سے کمرے سے
نکل آئی ۔ مجھے اپنی
سانس بحال کرنے میں کچھ دیر لگی میں اپنی نیم رضامندی دکھا آئی تھی اب آگے سمیر
صاحب کا کام تھا کہ موقع کا فائدہ اٹھاتے ہیں یا گنواتے ہیں
اپنے قمیض کی سلوٹیں
ٹھیک کرکے کچن میں آئی تو
خادمہ کھانا کھارہی
تھیشام تک روز کے مععلی*ت میں لگی رہی. رات کو اماں کے پاؤں دباکے سونے سے پہلے
میں نے غسل کیا ۔
مجھے قوی امید تھی سمیر
بھائی رات کو ضرور میرے پاس آئینگے ۔ کیونکہ میں دانہ ڈال چکی تھی ۔ ٹانگوںکے بال
دودن پہلے ہی صاف کئے تھے اس لئے میں اس طرف سے مطمئن تھی ۔ یہاں وہاں اپنے خوشبو
لگائی
اور دروازے کی چٹخنی
لگائے بغیر بند کرکے بستر پر لیٹ گئی ۔ دل میں کافی تشویش اور گھبراہٹ سی تھی
کیونکہ میں پہلے کبھی
اسی طرح سے کسی سے نہیں ملنے گئی اور نہ ہی کو ئی مجھے ملنے آیا تھا ۔ اور آج
میں سمیر بھائی کو
خاموش دعوت نامہ دے آئی تھی ۔ وہ آئے نہ آئے کچھ کہ نہیں سکتی تھی ۔ کل سے پہلے
اس نے کوئی ایسی حرکت
نہیں کی تھی جس سے ظاہر ہوتا کہ ان کے دل میں میرے لئےکچھ ایسے جزبات ہیں
۔
میں جانتی تھی کہ وہ آیا بھی تو کافی دیر بعد ہی آئیگا ۔ اریبہ کے سونے سے پہلے
انکا آنا ناممکن تھا ۔ اماں
کا کمرہ درمیان میں
پڑتا یے. انکو ایک تو سنائی اونچا دیتا ہے اور رات کو وہ کبھی باہر نہیں نکلتیں ۔
انکے
کمرے میں زیرو واٹ کا
بلب جلتا رہتا ہے۔جس سے انکے سونے یا جاگنے کا اندازہ ہوسکتا ہے ۔ میں انہی
سوچوں میں گم خود سے
کہتی وہ آئے گا. وہ نہیں آئے گا وہ آئے گا شاید نہیں آئے گا انہی سوچوں میں مجھے
نیند آگئی ۔ رات کا
جانے کونسا پہر تھا مجھے اپنے کولہوں پر کسی کا ہاتھ پھرتا محسوس ہوا میں چونک سی
گئی پھر فورا سمیر
بھائی کا خیال آیا تو سوتی بن گئی ۔ سمیر بھائی میرے کولہے پر ہاتھ پھیر رہے تھے ۔
اور
معلوم ہوتا تھا وہ میرے
برابر میں پیٹھ کے پیچھے لیٹا ہوا ہے میں یونہی لیٹی رہی تاکہ دیکھوں وہ کیا کرتا
ہے
۔
میری پوزیشن ایسی تھی کہ میرے کولہے باہر کی جانب نکلے ہوئے تھے اور کمر اندر کی
جانب ۔ سر تکیہسے نیچے اور گھٹنے پیٹ کی طرف سکڑے ہوئے تھے ۔کیونکہ میں اسی طرح
سوتی ہوں ۔ سمیر بھائی میرے
کولہے کی گولائیوں پر ہاتھ
پھیر رہے تھے ۔جب میری طرف سے انکو کوئی رسپانس نہ ملا تو انکے ہاتھ
کولہوں سے اوپر کمر پر
آگئے اور انہوں نے کمر اور پیٹ پر ہاتھ پھیرنا شروع کردیا ۔ مجھے بہت اچھا لگ
رہا تھا. انکا چھونا تو
نارمل حالات میں بھی مجھے ناپسند نہیں تھا اور آج تو میں سپیشلی چاہتی تھی کہ وہ
بے
دھڑک ہوکر مجھے چھوئے
اور مسلے ۔ میں یونہی سوتی بنی رہی ۔ سمیر نے میرے گال چھوئے اور تھوڑا سا
اٹھ کر دیکھا کہ میں
سوئی ہوئی ہوں یا نہیں ۔ اب اس نے کھینچ کر مجھے اپنے ساتھ لگا لیا اور میرے
ابھاروں پر ہاتھ پھیرنے
لگا ۔ میرے جسم میں ایک عجیب سنسنی خیز حرارت اٹھنے لگی. جو آج سے پہلے
کبھی محسوس نہ کی تھی ۔
اس نے تھوڑی دیر مجھے یونہی لپٹائے رکھا ۔ پھر اپنا ایک ہاتھ میرے نیچے سے
گزار کر مجھے بلکل ساتھ
چپکالیا ۔ اور دوسرا ہاتھ میرے چوتڑوں کو سہلاتا سہلاتا میری ٹانگوں کے درمیان
جانے لگا. میں نے اپنی
ایک ٹانگ تھوڑی سی اور موڑ لی جس سے اس کا ہاتھ میرے اندرونی حصے تک
آسانی سے جاسکتا تھا.
مجھے وہ چپکائے ہوئے تو پہلے ہی تھا ۔ اب اس نے اپنا نچلا دھڑ میرے پچھلے حصہ
کیساتھ لگایا تو اسکا
اکڑا ہوا ہتھیار میرے کولہوں کے بیچ ٹکرایاتو مجھے ایک جھرجھری سی آگئی ۔ اس نے
جان لیا کہ میں جاگ رہی
ہوں ۔ انیلہ تم جاگ رہی ہو اس نے سرگوشی کی تو میں نے سرگوشی میں ہی جواب
دیا جی جاگ رہی ہوں مگر
آپ یہ کیا کررہے ہو میں نے اپنا ہاتھ انکے کولہے پر رکھتے ہوئے پوچھا ۔۔ پیار
کررہا ہوں انیلہ سمیر
بھائی نے جواب دیا. ایسے پیار کیا جاتا ہے سمیر بھائی میں نے پوچھا تو اور کیسے
پیار
کیا جاتا ہے سمیر بھائی
بولے ۔ میں نے کروٹ لی اور اس کے سینے سے لپٹ گئی اور اسکے قمیض کے
اوپر سے کندھے پر بوسہ
دیکر کہا ایسا کیا جاتا ہے پیار ۔ تو اس نے زور سے مجھے چمٹالیا اور میری گردن
پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے
وہ گردن کو چومتے رہے اور میں مستی کی فضاؤں میں گم ہونے لگی ۔ سمیر کے
ہاتھوں میں کوئی جادو
سا تھا ۔ میرے انگ انگ میں مستی چھانے لگی ۔ سمیر بھائی ہم جو کررہے ہیں کیا
ہمیں یہ کرنا چاہیے میں
نے پوچھا تو وہ بولے کرنا چاہیے یا نہیں اس کا مجھے نہیں علم مگر جو ہورہا ہے
بہت اچھا ہورہا ہے مجھے
یقین ہے تمہیں بھی اچھا لگ رہا ہوگا۔۔۔۔ مگر میں نے کہنا چاہا. اگر مگر چھوڈو
جان یہ کہتے ہوئے انہوں
نے میرے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں جکڑ لئے ۔ میں اب اس کے بلمقابل تھی تو اسکا
راڈ میری رانوں سے ٹکرا
رہا تھا ۔ میں نے تھوڑی سی ٹانگیں کھلی کیں تو وہ بدمعاش جھٹ رانوں کے درمیان
گھس گیا اور میں نے
رانوں کو بھینچ کر اس کو جکڑلیا ۔ ادھر سمیر کی ہاتھ میرے پورے جسم کی سیر کرنے
لگے انہوں نے اپنی زبان
میرے ہونٹوں پر پھیری تو میں نے اپنے ہونٹ تھوڑے سے کھول دئیے تو اور اپنی
زبان اسکی زبان سے
ملانے لگی تو وہ میری زبان کو چوسنے لگا ۔ میں مزے لے رہی تھی اس نے اپنے راڈ
کو میری رانوں کے
درمیان رگڑنے کی کوشش کی تو میں نے رانیں ڈھیلی کردیں تو اسکا راڈ میری منی سےٹکرا
کر آگے پیچھے ہونے لگا ۔ میں نے اس کے کولہے پر ہاتھ رکھ کر آگے کی طرف دبایا اور
خود بھی
تھوڑا آگے ہوئی تو اسکا
راڈ میری منی پر جاٹکا جو پہلے ہی گیلی ہوچکی تھی میں نے اسکا ازار بند کھول دی
ا اور اس کے راڈ کو
اپنے ہاتھوں آزاد کرلیا اور اسکو اپنے ہاتھ میں لیا تو مجھے اس پر بے تحاشا پیار
آیا ۔
اس کی لمبائی اور
موٹائی کسی بھی عورت کی نیت خراب کرنے کے لئے کافی سے بھی کافی زیادہ تھی ۔سمیر
نے ہاتھ بڑھا کر میری شلوار
کو کھینچا تو وہ نیچے کھنچتی چلے گئی ۔ کیونکہ میں الاسٹک پہنتی ہوں ۔ میں
اب اٹھ کر بیٹھ گئی اور
اپنی شمیض اتار کر نیچے پھینک دی اب ہم دونوں ننگے تھے ۔
دروازے کی کنڈی لگائی
تھی یا نہیں میں نے سرگوشی کی تو سمیر اٹھا اور دروازے کا کنڈا لگاکر واپس آیا تو
اسکے لہراتے لن کو دیکھ
کر میرے منہ میں پانی آگیا وہ جب چارپائی کے قریب پہنچا تو میں نے اسکے لن کو ہاتھ
میں لیکر اچھی طرح جانچ تول کر دیکھا تو وہ ظالم بہت کام کی چیز نکلا ۔ میں اس کے
موٹے ٹوپے کو چومنے لگی ساتھ ساتھ اس ہاتھ سے سہلاتی اور مساج بھی کرتی رہی ۔ سمیر
اب کھڑا ہی رہا اور میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتا رہا ۔ میں نے اسے قریب کھینچا
اور اسکی ناف چومنے لگی ۔۔ اس کا لن میرے مموں سے
ٹکراتا تو مستی کی ایک
لہر اٹھتی جو میری چوت کے گیلے پن میں اور اضافہ کا موجب ہوتی اور رس لیکرسے نکل
کر میری رانوں کو بگھونے لگتا ۔ سمیر کے چوتڑوں پر ہاتھ رکھ کر اسکو مزید اپنے
قریب کیا اور اپنے بوبز کو سمیر کے لن کیساتھ رگڑنے لگی. سمیر سے برداشت نہ ہوسکا
تو اس نے میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور اس پر بوسوں کی بارش کردی. مجھے لٹا
کر ساتھ ہی لیٹ گیا سمیر نے اپنا ہاتھ میری بلی پر رکھا
پھر ہاتھ کو انچ انچ
کرکے نیچے لے جانے لگا ۔ مجھے عجیب سا محسوس ہوا ۔ سمیر کا ٹچ میرے لئے
مقناطیس جیسی تاثیر
رکھتا ہے تو جب اسکی انگلی نے میر دانے کو چھوا تو میں تڑپ اٹھی اور اسکا ہاتھ
سختی سے پکڑ لیا اور
اسے سرگوشی کی کہ نہیں سمیر یہ گندی ہے اسے مت ٹچ کرو آپکے ہاتھ گندے
ہوجائینگے ۔ تو اس نے
میرا ہاتھ ہٹا کر سیدھا میری رستی چوت کے دانے پر رکھا اور مساج کرنے لگا ۔
اسکی ایک انگلی لیکر کے
اوپر پھری تو یوں لگا جانے کب سے اس لمحے کا انتظار تھا ۔ اسکی انگلی اندر
گئی تو میں اچھل پڑی
میرے چوتڑے اوپر اٹھے اور میری کمر ہچکولے کھانے لگی ۔ جیسے جیسے اسکی
انگلی اندر باہر ہوتی
ویسے ویسے میرے چوتڑے اوپر اٹھتے اور نیچے گرتے ۔میں بدحال ہونے لگی ۔ اسکی ایک
انگلی میری چوت کی لیکر کراس کرکے پوری اندر تھی اور انگوٹھے سے وہ میری چوت کے
دانے کو سہلارہا تھا ۔ کمرے میں میری تیز سانسوں کی گونج سنائی دینے لگی سمیر کی
دوسری انگلی کاکیساتھ اندر جانا تھا میں برداشت نہ کرسکی اور سمیر کیساتھ بے
اختیاری میں چمٹ گئی اور اف ظلمی کہتے ہوئے سمیر کے ہاتھوں میں چھوٹ گئی ۔ اتنا رس
پہلے کبھی نہیں بہا تھا جتنا رس میری چوت نے آج بہایا تھا
۔
میں نے سمیر کا ہاتھ روکا اور اسکی انگلی کو زبان لگا کرچکھنے لگی ۔ مجھے ٹیسٹ
اچھا لگا تو میں اس
کی دونوں انگلیوں کو
چومنے چاٹنے لگی باری باری ۔ میں ان انگلیوں کی احسان مند تھی جنہوں نے مجھے تڑپا
تڑپا کر ڈسچارج کردیا تھا تو میں کیوں نہ ان انگلیوں کو چومتی چاٹتی ۔۔۔۔۔سمیرمیرے
مموں کو ہاتھ سے دبانے سہلانے میں لگاہوا تھا ایک مما اس کے منہ میں تھا دوسرے کو
وہ ہلکے دباتا اور مسلتا تو میری رگ رگ پر نشہ طاری ہونے لگتا تھا ۔ میں اس کے لن
کو ہاتھ میں لیکر مسلنے لگیپیار سے ۔ اس پر تو بہت پیار آرہا تھا ۔ وہ تھا ہی بہت
پیارا ۔ میں جانتی تھی کہ اب یہی میری راتوں کو سہارا اور دن کو خیالوں کا مرکز
رہیگا ۔ سمیر میرے مموں کو چومتے دباتے کچھ اطاولے(دیوانے)سے ہورہے تھے میں نے
انکے لن پر مساج تیز کردیا اور ساتھ ساتھ اسے دبابھی دیتی ۔ سمیر اٹھے اور میری
ٹانگوں کے
درمیان بیٹھ گے انکا لن
میری چوت کو سلامی دینے لگا تو میں نے پوچھا سمیر کیا کرنے لگے ہو تو کہنے لگے
پیاسے کو سیراب کرنے لگا ہوں پیار کی ندیا میں میں غوطے لگائے گا تو اس کی جنم جنم
کی پیاس بجھ جائیگی ۔۔۔۔ سمیر چمنی اتنی گرم ہے کہ یہ بےچارہ اندر جل جائے گا کیوں
نا آج اسکو کنارے کنارے بھگولو
اور پھر کسی رات اسے
اندر ڈبکی لگانے کا موقع دینا ۔سمیر یہ سن کر مایوس تو ہوا مگر میں نے ٹھانا تھا
کہ آج کی رات تو باہر باہر سے ہی مزے کرینگے ۔ سمیر نے کچھ کہے بغیر میری ٹانگیں
اپنی کمر کے گرد لیں
اور اپنا لن میری چوت
کے اوپر عمودا رکھ کر رگڑنے لگا ۔ وہ شاید برداشت نہیں کرپارہا تھا اسکا لاوا باہر
نکلنے کوبے تاب تھا کسی
بھی وقت سیلاب بند توڑ کر باہر نکل سکتا تھا ۔تو میں نے کہا سمیر آپ لیٹ جاؤ
اور میں نے پہلو بدل کر
اس کی جانب اپنی پیٹھ کرلی اور اسکا لن پکڑ کر اپنی رانوں میں لے لیا ۔ میری رانیں
تو گیلی تھیں پھر بھی میں نے لن کو تھوک سے خوب گیلا کیا اور رانوں کے اندر بھینچ
لیا ۔ سمیر نے ہلنا اور دھکے لگانا شروع کیا ۔ اسکا لن آتے جاتے میری چوت کو بھی
مسل رہا تھا ۔ سمیر نے ایک بازو میری
کمرکے نیچے سے گزار کر
میرے ایک ممے کو پکڑلیا اور اسے دبانے لگا اور اسکا دوسرا ہاتھ میرے
چوتڑے سہلارہا تھا سمیر
زور سے رگڑو میری چوت کو مسل ڈالو ۔۔ میں اسے سیکسی آوازوں سے جوش
دلارہی تھی سمیر بھی
میری رانوں کے درمیان خوب لن رگڑ رہا تھا میں بار بار اپنا تھوک اس کے لن پر
لگادیتی جلد ہی سمیر کے
سانسوں کی آواز تیز تر ہوگئی تو اس نے میرے چوتڑے پکڑ کر زور زور سے
دھکے لگائے تو میری چوت
نے پھر کنارے بگھودئے اور میں دوسری بار ڈسچارج ہوگئی اور اسی وقت سمیر کے لن نے
ایک فوارہ چھوڈا جو میری رانوں اور بستر کی چادرکو بگھوگیا ۔ اسکی پچکاری میری
رانوں کو
چیرتی ہوئی نکلی اور
فرش پر جاگری سمیر کچھ دیر تک پچکاریاں مارتا رہا اسکا جسم لرزتا اور کانپتا اور
لذت سے جو اسکے منہ سے
آوازیں نکل رہی تھیں وہ ماحول کو خوابناک بنارہی تھیں ۔ اس نے مجھے سختی
سے بھینچ لیا تھا اور
میں بے بس ہوگئی تھی اسکی جنونی حالت دیکھ کر ۔ مجھے افسوس ہوا کہ میں اندر
ڈلوالیتی تو کتنا سواد
آتا ۔۔۔۔ مگر جو بھی ہوا مزہ بہت آیا سمیر نڈھال ہوکر وہیں لیٹے رہے میں نے انکی
طرف اپنا رخ کیا اور انہیں چومنے لگی ۔میں خوش تھی کی میرے کہنے کی سمیر نے لاج
رکھ لی ۔ اور سامنے پڑی کھانے کی ڈش کو کھانے کی بجائے میری مرضی کے مطابق چکھنے
پر ہی اکتفا کیا ۔ تھوڑی دیر انہیں لپٹائے رکھا ۔ اس کی سانسیں بحال ہوئیں تو اٹھ
کر اس کے لن کو کپڑے سے صاف کیا پھر اپنی چوت اور رانوں کو بھی خشک کیا ۔ بیڈ شیٹ
جو گیلی ہوچکی تھی کو نکال کر نیچے فرش پر پھینک دیا۔ اور سمیر سے چمٹ گئی ۔ تھوڑی
دیر بعد اسکی طرف دیکھا تو اسکے چہرے پر بڑی پرسکون مسکراہٹ دیکھ کر میں شاد ہوگئی
۔
اسکی آنکھیں بند تھیں
اور اسکے چہرے کی طمانیت بتارہی تھی کہ سمیر بہت سکون میں اور خوش ہے ۔
یہی تو میں چاہتی تھی
۔۔ میری پہلی محبت سمیر ہی تو ہے
سمیر کی آنکھیں بند
تھیں مگر اسکے چہرے کی طمانیت بتارہی تھی کہ سمیر بھائی بہت خوش ہیں اور یہی تو
میں چاہتی تھی. میری
پہلی محبت سمیر ہی تو ہے. مجھے اس پر پیار آرہا تھا سچ تو یہ ہے وہ مجھے بہت
اچھے لگنے لگے تھے ۔
اور وہ تھے ہی بہت اچھے دکھنے میں بھی اور عمل میں بھی ۔سمیر بھائی میں اب
آپ کو تم کہاکرونگی میں
نے انکی چھاتی کے بالوں میں انگلیاں گھماتے ہوئے کہا برا تو نہیں مناؤگے ۔ نہیں
جان مجھے تو اچھا لگے
گا ویسے بھی میں تو اور تم کہنا اور کہلوانا پسند کرتا ہوں مگر تم بھی مجھے بھائی
کہنا چھوڈ دو ۔کہ اب
ہمارا رشتہ ان القاب کی اجازت نہیں دیتا ۔انہوں نے میرے نپلز پر چٹکی کاٹتے ہوئے
کہا
۔تو
میرے منہ سے سی ۔۔۔۔ سی نکلی ۔۔ جی یہ تو سہی ہے ۔ میں تو تمہیں جانی یا جانوکہنا
چاہونگی مگر
ڈرتی ہوں کہ عادت بن
گئی تو کسی کے سامنے منہ سے نکل گیا تو بڑی سبکی ہوگی. میں تمہیں دوسروں کے
سامنے سمیر بھائی ہی
کہونگی ہاں مگر تنہائی میں جو بھی بول دوں چلے گا. کیوں کیا خیال ہے ویسے بھی
کسی کو بھائی بولنے سے
کوئی بہن تو نہیں بن جاتی. سمیر نے مجھے چومتے ہوئے کہا ۔ اور مجھے اہنے
سینے کیساتھ بھینچ لیا۔
اسکی چھاتی کے گھنے بال میرے بوبز سے لگے تو میرا لوں لوں کھڑا ہوگیا ۔ معلوم
نہیں سمیر میں کیا تھا
انکی ہر چیز ہی مجھے مزہ دیتی ۔ مجھے یاد آیا شادی کے شروع کے دنوں میں کوئی
چیز پکڑاتے وقت انکی انگلیاں
میری انگلیوں سے ٹچ ہوئیں تھیں تو میرے پورے جسم میں ایک کرنٹ سا لگا
اور ایک سنسنی کی لہر
سر سے لیکر پاؤں تک سارے بدن میں دوڈ گئی تھی ۔ میں حیران رہ گئی تھی. کیونکہ
صغیر میرے خاوند کے
چھونے کا مجھ پر ایسا اثر نہیں ہوا تھا ۔ پھر جب بھی سمیر بھائی نادانستگی میں مجھ
سے چھو جاتے تو مجھ میں
ایک میٹھی لہر سی پھر جاتی۔سمیر ایک بات پوچھوں اگر سچ بول سکو تو بتانا ورنہ
خاموش رہنا میں نے سمیر کے بالوں میں انگلیوں سے
کنگھی کرتے ہوئے پوچھا
۔ ہاں جانم پوچھو میں سچ ہی بولتا ہوں ۔ انہوں نے کہا تو میں نے پوچھا ۔ کیا کبھی
تم نےسوچا تھا کہ میرے ساتھ لیٹو اور اپنے اسکو میری اس پر رگڑو۔ میں نے اس کے لن
کو چھوتے ہوئے
کہا جو پھر کھڑا ہوچکا
تھا۔ نہیں ایسا تو نہیں سوچا تھا مگر تم شروع سے ہی مجھے اچھی لگیں تھیں ۔دراصل جب
اریبہ کی ممی فوت ہوئیں
تو میری دنیا ہی اندھیر ہوگئی تھی. میں ان سے بہت محبت کرتا تھا اسکی جدائی میرے
لئے
گہرا صدمہ تھی. میں نے
تہیہ کرلیا کہ کسی اور عورت کے پاس نہیں جاؤنگا اور نہ ہی شادی
کرونگا۔ مگر اریبہ کا
بن ماں ہونا بھی ایک مسلہ تھا امی جان کے لئے اریبہ کو سنبھالنا مشکل کام تھا
کیونکہ
وہ خود پیرانہ سالی کی
وجہ سے بیمارہی رہتیں ۔ تو میری بہن سمیرا اریبہ کو سنبھالتی ۔ انہوں مجھے بہت
مجبور کیا کہ شادی
کرلوں کئی ایک رشتے دیکھے بھی گئے میں ہر بار مسترد کردیتا کیونکہ مجھے اریبہ کے
لئے
وہ رشتے نامناسب لگتے
تھے ۔ پھر تمہاری بات چلی ۔ جس طرح امی جان نے تمہارے گن گائے اور
تعریف کی تو میرا دل
بھی نرم پڑگیا کہ اتنی پیاری لڑکی کو اپنا لینا چاہیے ۔ مگر حسب توقع تمہارے گھر
والوں کی طرف سے انکار
ہوگیا ۔ یقین جانو میرا دل ٹوٹ گیا ۔ ایک مدت کے بعد دل دھڑکا وہ بھی تمہارے
لئے مگر ۔۔۔۔۔۔ پھر گھر
آکر ہم سب نے بحث کی کہ اریبہ کے لئے انیلہ سے بہتر ساتھی ملنا مشکل ہے ۔تو
صغیر کی منتیں کی گئیں
۔۔۔۔کہ وہ شادی کرلے یوں تم ہمارے گھر آگئیں ۔ تمہیں روز دیکھتا تمہارے بولنے کا
طریقہ ۔ چلنے کا انداز
کیسے تم مسکراتی اور اریبہ کیساتھ کھیلتے ہوئے بچی بن جاتی سب کچھ میرے سامنے ہی
تو
تھا ۔ میں ڈرتا تھا کہ
میں کہیں غلطی سے تمہیں کچھ کہ نا بیٹھوں نادانستگی میں تمہیں دل کا داغ دکھا
نے لگ جاؤں ۔ تو میں نے
کوشش کی کہ تمہارے لئے میرے جزبات تم پر ظاہر نہ ہوں ۔ میرا یہی خیال تھا
کہ تمہارا خاموش چاہنے
والا بن کر زندگی گزار دونگا۔ اس لئے شروع شروع میں تم سے بےرخی بھی اختیار کی
۔اور
اپنا رویہ سرد رکھا۔ مگر تم روز بروز میرے خیالوں میں سمانے لگی تو میں نے سوچا تم
سے دوستی کرنے میں
کیا ہرج ہے ۔۔ مگر جو
آج ہم دونوں میں ہوا میرا ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا یہ ایک اتفاق
سمجھ لو ۔ شاید یہ ایک
فطری پیش رفت ہو اور ہم اس کی زد میں آگئے ۔۔۔۔ جانی تمہارے کہے ایک ایک لفظ پر
مجھے اعتبار ہے یہی
میرے دل کی آواز تھی مگر ایک بات کی سمجھ نہیں آئی ۔۔ کہ کیا وجہ تھی کہ صغیر کا
رشتہ
پہلے نہیں بھیجا گیا
کیونکہ اس پر ہمارے گھر میں کافی حیرت کا اظہار ہوا تھا۔ ۔ انیلہ اس ٹاپک پر پھر
بات کرینگے
سب باتیں ایک ہی دفعہ
تو نہیں کی جاتیں ۔۔ یہ کہتے ہوئے مجھے سینے سے چمٹاکر میرے ہونٹ اپنے لبوں میں
لے لئے ۔میں اسکا جواب
دینے لگی اور اسکی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگی اور کبھی ایک دو مکے بھی ہلکے سے
لگادیتی. اسکا لن پھر
مستی میں اکڑا ہوا میری رانوں میں گھسنے کے لئے ٹکریں ماررہا
تھا ۔ اور میری پھدی
بھی اسکا استقبال کرنے کے لئے کھنلے اور بند ہونے لگی اور میرے پورے بدن
شہوت کی لہر سوار ہوگئی
میں نے سمیر کو اوپر کھینچا تو وہ میرے اوپر لیٹ گیا اسکا لن میری رانوں کے
بیچ پھدی کی لیکر کو
کھجانے لگا ۔ میں مستی میں ڈوبنے لگی میرے ہاتھ نے انکا لن پکڑ کر اپنی چوت پر
مسلا تو سمیر میری
بےچینی بھانپ گیا اس نے لیٹے لیٹے میری ٹانگوں کو کھڑا کیا اور میری چوت پر لن ٹکا
کر پوچھا ۔ اجازت ہے
میری رانی ۔۔ میں نے شرماتے ہوئے کہا ۔ اہنا ہی گھر سمجھو جانی ۔۔ وہ ہٹ کر
دھکا لگانے لگا تو میں
نےاسکی ناف پر ہاتھ رکھتےہوئے کہا جانی خیال سے تمہارا ٹوپا بہت موٹا ہے ذرا
دھیرے سے ۔۔ اس نے میرے
ہونٹوں پر بوسہ دیتے ہوئے کہا گھبراو نہیں. اور اپنے ہاتھ سے میری پھدی
کھولتے ہوئے لن کو ٹکایا
۔ تو میں نے کہا ٹھیک ہے ایک ہی جھٹکے سے اندر ڈال ڈال دو ۔ اس نے ٹوپا
دھیرے سے اندر کیا اور
میری آنکھوں میں دیکھا تو میں نے شرماکر آنکھیں جھکا لیں ۔۔ اس نے واقعی ایک
زبردست جھٹکے میں اندر
کیا تو میری چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی ۔۔ظالم لن کا ٹوپا تو موٹا تھاہی لمبائی بھی
کم نہ تھی
یہ تو جب اندر پہنچا تو
معلوم ہوا 7 انچ سے زیادہ ہی ہوگا۔ کم نہ تھا ۔سمیر تھوڑی دیر رکا تو میرے
سانس ہموار ہوئے اور
پھر سمیر نےیولے ہولے مجھے چودنا شروع کیا میں ٹانگیں تھوڑی سی کھولیں تاکہ
سمیر کھل کھیلے ۔ اس کے
ہاتھ کبھی میرے بوبز کو دباتے کبھی میرے چوتڑوں کو مسلتے ۔۔ میں مدہوش
ہوکر مزے لینے لگی
۔سمیر پہلے ایک بار فارغ ہوچکا تھا اس لیے وہ اپنا ٹائم لے رہا تھا کبھی آہستہ
کبھی تیز دھکوں
سے مجھے چودتے ہوئے بہت
پیارا لگ رہا تھا ۔ ایسا مزہ آج تک مجھے نہیں ملا تھا ۔ نہ ہی چوت اس طرح بھری
تھی ۔یوں لگا ان کا لن
جیسے میری چوت کے لئے ہی بنا ہو ۔ اسکے دھکوں میں تیزی آئی تو میں
نے بھی نیچے سے دھکوں
کو جواب دینا شروع کردیا تھوڑیہی دیر کے بعد کمرہ ہم دونوں کی لذت بھری
آوازوں سے گونجنے لگا
۔سمیر لمبے سٹروک لگارہا تھا سمیر لن کو چوت کے منہ تک لے آتا پھر زور سے
آخر تک لے جاتا جس سے
میرا انجر پنجر ہلنے لگتا ۔ میں نے ٹانگیں اسکی پیٹھ پر بھینچ لیں اور اسکی سپیڈ
کا ساتھ دینے لگی چند
ایک زوردار جھٹکوں کے بعد سمیر نے ایک کپکی لی اور عجیب سی آوزیں نکالتا
چھوٹنے لگا ۔ اسکے گرم
گرم لاوے کی پہلی دھار گرتے ہی میں بھی فارغ ہوگئی ۔ اس کے گرم لاوے نے
میری چوت کو اندر سے
بھر دیا تھا ۔ سمیر چھوٹتے چھوٹتے آخری دوچار کرارے دھکے لگا کر مجھ پر ہی
گرگیا ۔ اور لمبی لمبی
سانسیں لینے لگا ۔ میں اسے چومنے لگی اور بانہوں میں دبا کر بھینچنے لگی ۔وہ پسینہ
پسینہ
ہورہا تھا میرا سارا
جسم اسکے پسینے سے بھیگ گیا ۔ اس کے پسینے کی خوشبو نے مجھے مدہوش
کردیا ۔ اور ہم یونہی
لیٹے رہے ۔۔۔ کچھ دیر کے بعد ہم علی* کی آواز کیساتھ ہی سنبھلے ۔ سمیر اٹھا تو میں
نے تولیہ کیساتھ اسکا
پسینہ خشک کیا اسے شلوار اور قمیض پہنائی اور وہ مجھے بوسے دیکر کمرے سے نکل گیا۔
اور میں چارپائی پر
لیٹی ہوئی غنودگی میں چلی تھوڑی دیر بعد میری غنودگی ٹوٹی تو میں نے ایک مستی بھی
انگڑائی لی
اٹھ کر بیٹھ گئی . مجھے
اپنی برہنگی کا احساس ہوا تو فرش پر اپنے اترے
ہوئے کپڑے اٹھا کر غسل
خانے میں داخل ہو گئی . اور گنگناتے ہوے سب
کچھ مل مل کر اوپر نیچے
سے صاف صفا کر کے خوب نہائی اور دوسرا
جوڑا پہن کر کچن میں آ
کر سب کے لئے ناشتہ تیار کرنے لگی . پھر یاد
آیا آج سے تو سمیر
بھائی اور اریبہ نے بھی کچن میں ہی ناشتہ کرنا ہے جلدی
سے سٹور سے ایک رنگین
کرسی اٹھا لائی اور اسے جھاڑ پونچھ کر
دوسری کرسیوں کے ساتھ
ٹیبل کے سامنے رکھ دیا . تاکہ اریبہ اس پر بیٹھ کر
ناشتہ کرے . اتنے میں
سمیر صبح کی سیر سے واپس آئے سیدھے کچن
میں ہی چلے آئے . انہیں
دیکھ کر گزری رات نظروں کے سامنے آ گئی اور
میں شرما سی گئی .
انہوں نے نے آگے بڑھ کر مجھے اپنی باہوں میں قید
کر لیا اور میری گردن
پر اپنے ہونٹ رکھ دئیے . اففففف ان کے گرم ہونٹوں
کے لمس نے تو آگ ہی لگا
دی ؛ میں تڑپ اٹھی اور ان کی بانہوں میں مچلنے
لگی . ان کا نٹ کھٹ
میری ٹانگوں سے ٹکرانے لگا اور مجھے میں
گیلا کر گیا . ایسے ٹچ
بھی کتنا مزہ دیتے اور اثر رکھتے ہیں . کبھی اتفاق
نہ ہوا تھا . اب جان
گئی سب ٹچ نہیں کوئی کوئی ٹچ مقناطیس کی
مانند اپنی جانب کھنچے
چلا جاتا ہے . جیسے سمیر کے ہاتھوں میں کوئی
جادو سا ہو مجھے چھو
بھی لے تو میرے بدن کا لوں لوں کھڑا ہو جاتا ہے
اور بدن کے سارے ساز
بجنے لگتے ہیں ؛. اب اسکا کارندہ بیتابی دکھانے
لگا تو میرا من بھی
چاہنے لگا کہ کوئی شرارت ہو جائے . ناشتہ سے قبل
ہی کچھ سواد لے لیا
جائے . مگر جانتی تھی کے ٹائم اریبہ کے اٹھنے کا ہے
اس لئے جلدی سے نہ
چاہتے ہوے بھی میں سمیر کی بانہوں کے حصار سے
نکل آیی ان کو سوری بول
کر میں ابلے انڈوں کو چھیلنے لگی . میری
انکی طرف پیٹھ تھی میں
یہی سمجھی سمیر غسل کے لئے چلا جایئگا ؛ مگروہ میرے پیچھے ان کھڑا ہوا اور "
میری جان تھک گئی ہوگی " کہتے ہوئے
میرے شانوں کو دبانے
لگا ؛ میں کھلکھلا کر ہنس دی . رات کو تم نے کونسی
کسر چھوڑی تھی . ارے
میں نے کیا کیا وہ ہنستے ہوئے کہنے لگا ؛
ہاں جی تم نے کیا کرنا
تھا میری ناف تک تو چوٹیں لگاتے رہے میں نے
ہاتھ پیچھے کر کے اس کے
راڈ کو دباتے ہوئے کہا جو میرے کولہوں پر
مشق آزمائی کر رہا تھا
. اس نے میری گردن ہونٹ رکھ دئیے . اسکے
ہاتھوں کی میرے شانوں
پر گرفت اور انہیں دبانے کے انز سے مجھے
یوں لگا جیسے میری
آنکھیں بھاری ہو گئی ہیں اور ان میں خمار سا اتر
آیا ہے . میں نے اپنی
پیٹھ ان کی چھاتی پر ٹکا دی اور جیسے ان کے سہارے
کھڑی ہو گئی . وہ مجھے
چومنے لگ گئے اور انکا ڈنڈا میرے کولہوں پر
دباؤ ڈالنے لگ گیا تو
میں بہکنے لگی . وقت کی نزاکت نے مجھے احساس
دلایا کہ بہکنے اور
بہکانے کے لئے ٹائم بلکل مناسب نہیں . میں نے
انکے ماسٹر کو پیر سے
دبایا اور انہیں بولا کہ اب تشریف لے جایئں پلیز .
" دن کے وقت ہمیں
محتاط رہنا ہوگا جو کچھ بھی کرنا ہے اسے رات
کے لئے رہنے دیں "
یہ کہتے ہوے میں انہیں نرمی سے کچن سے باھر
چھوڑ آئ . اب آپ اچھے
بچوں کی طرح جا کر غسل کریں اور اریبہ کے
ساتھ آ کر ناشتہ کریں .
وہ اپنی قمیض میں اٹھے ہوے ابھار کی طرف اشارہ
کرتے ہوئے بولے کہ
" میرا نہیں تو اس غریب کا تو خیال کرو . اس کے
جان لیوا اٹھ کو دیکھ
کر ایک بار پھر میری طبیعت مچل اٹھی مگر میں نے
اسے کہا اس کو رات کو
ہی دیکھونگی اور ساری رات آرام بھی نہیں کرنے
دونگی . اب تم جاؤ نہ
مجھے ستاو نہ آزماؤ پلیز , وہ ہنستے ہوئے چلے گئےتھوڑی دیر بعد اریبہ آ گئی تو اسے
اسکول کے لئے تیار کیا اور اسے
رنگین کرسی دکھاتے کو
بتایا کہ آج سے میری رانی اس پر باتھ کر
ناشتہ کیا کرے گی .
کرسی پر بیل بوٹے بنے ہوے تھے تو اریبہ خوش
ہو گئی کہ سپیشل کرسی
پر بیٹھ کر وہ ناشتہ کیا کرے گی . اور اس
پر بیٹھ کر اپنے ابو کا
انتظار کرنے لگی . سمیر تیار ہو کر آئے تو
اریبہ کو پیار کر کے اس
کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئے . میں بھی
ناشتہ ٹیبل پر لگا کر
ان کے ساتھ ہی بیٹھ گئی . اربا بھی خوش ہوگی کہ آج
آنٹی بھی ناشتہ میں
شریک ہیں . سمیر کی شوخ نظریں مجھ پر ٹکی ہوئی تھیں
اور میں شرما رہی تھی .
ان کی بے باکی سے مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں
اریبہ نوٹس ہی نہ لے لے
. سوچا انک رات کو سمجھاونگی کہ دن اور
دوسروں کے سامنے ہمیں
کیسے اور کتنا محتاط رہنا ہوگا .
انہوں نے بڑی سویٹ کلون
لگائی ہوئی تھی جو مجھے مدہوش کئے
جا رہی تھی . موقع نہیں
تھا ورنہ انہیں سمیل سمیت اپنے اندر سمو لیتی ناشتہ کر کے سمیر اریبہ کو اسکول
ڈراپ کرنے چلے گئے تو میں
اماں کو ناشتہ کروایا .
ان کا غسل کرنے کا موڈ تھا تو میں نے ان کے
لئے پانی گرم کر کے
رکھا اور دھلے ہوئے کپڑے نکال کے رکھ دیئے
باھر آئی تو خادمہ آ
چکی تھی . شکر کیا کہ وہ آ گئی ہے کیونکہ سمیر
نے ساری رات جگایے رکھا
تھا تو نیند آنکھوں میں اتری جا رہی تھی
اریبہ کو چھوڑ کر سمیر
اے تو ان کو چاہے کا کپ دے کر بتایا کہ میں
سونے جا رہی ہوں .
کھیتوں سے واپس آؤگے تو ملاقات ہوگی . ظھر کی
علی*
کے وقت اٹھی . علی* ادا کی پھر باقی دن حسب معمول گزر
گیا . شام
کے ڈھلتے ہی میرا بدن
ٹوٹنے لگا . طبیعت مچلنے لگی ایسا میرے ساتھ
پہلے کبھی نہ ہوا تھا .
ایسا لگنے لگا جیسے میرے انگ انگ سے جوانی
پھوٹنے لگی ہو . میں
انگڑائی پی انگڑائی لیتے ہوئے اپنے محبوب کی طلب
بے قرار ہونے لگی . آنے
والی رات کے تصور ہی سے میں ٹپکنے لگی
اور میری رانوں تک گیلی
ہو گیں . مگر ابھی تو شام ڈھلی تھی اور
پھر رات کو اترنا تھا .
پھر اپنے محبوب کی راہ تکنی تھی مجھے
اسکے ایک ٹچ کے لئے
میرا انگ انگ بیچین ہو رہا تھا . نہ جانے سمیر
کے ٹچ میں کیا تھا کہ
میں اور میرا جسم اسی کا ہو کر رہ گیا .
رات کو سب کام نمٹا کر
کمرے میں آ کر میں نے غسل کیا اور
اپنا پسندیدہ عطر یہاں
وہاں لگایا اور کچھ پہنے بنا ہی بیڈ پر دراز
ہو گئی . میں سمیر کو
سرپرائز دینا چاہتی تھی . اس نے کہا تو نہیں
کہ وہ آئے گا مگر مجھے
یقین تھا کہ وہ ضرورآئیگا ,
جذبۂ عشق سلامت ہے تو
------------------
کچے دھاگے سے چلے آئیں
گے سرکار بندھے ؛ کے مصداق ان کے آنے
کا یقین تھا . میں نے
چادر اوڑھ لی اور لیٹ کر ان کے ہی بارے سوچنے
لگی اور نہ جانے کب
آنکھ لگ گئی . میری رانوں میں گدگدی ہونے لگی تو میری آنکھ کھل گئی دیکھا تو سمیر نے
ے مجھے پیچھے سے اپنے گلے سے لگارکھا
تھا اسکے ایک ہاتھ نے
میری کمر کے نیچے سے گزر کر میرے ایک ممے کو
پکڑ رکھا تھا اور دوسرے
ہاتھ نے اوپر سے دوسرا مما پکڑا ہوا تھا. اور انکو
ہلکے ہلکے دبارہا تھا ۔
میں سمیر کے انتظار میں ننگی ہی سوئی تھی. اور اب
سمیر نے پیچھے سے اپنا
سب کچھ مجھ سے لگا رکھا تھا اور اسکا نٹ کھٹ
پیچھے سے میری رانواں
میں رینگ رہاتھا جس سے مجھے جلول کا احساس
ہورہا تھا ۔ میں یونہی
کچھ دیر لیٹ کر مزے لیتی رہی ۔ سمیر کبھی میرے شانوں
پر بوسے دیتا تو کبھی
میری گردن کو دیوانہ وار چومنے لگتا جس سے مجھ پر
مدہوشی کی کیفیت طاری
ہوریی تھی ۔ میں نے تھوڑی ٹانگیں کھول کر اس کے
راڈ کو اندر گھسنے کی
جگہ دی تو وہ جان گیا کہ میں بھی جاگ کر مزے کے
کھیل میں شریک ہوچکی
ہوں ۔ انہوں نے میرے نپل پر ایک چٹکی لی تو میں
اف کرتے ہوئے پلٹی اور
اسکی چھاتی سے اپنا سینہ چمٹالیا ۔ اس نے مجھے
بھینچتے ہوئے میرے لبوں
کو اہنے ہونٹوں میں جکڑلیا ۔ میں انے اہنی زبان کی
نوک سے اسکے ہونٹوں کو
چھوا تو اس نے میری زبان کو اپنے منہ میں لیکر
چوسنا شروع کردیا ۔ میں
اس کی گردن اور شانوں پر ہاتھ پھیرنے لگی ۔وہ بڑی
شدت کیساتھ میری زبان
کو چوس رہے تھے ۔اور میں مست ہوتی جارہی تھی
انکا شرارتی منا میری
رانوں میں اٹھکیلیاں کرتے ہوئے میری منی کو بھی چھیڑ
دیتا تو میں اپنے
کولہوں کو اس کی طرف دبادیتی ۔ میری چوت تھوڑی گیلی
ہوچکی تھی اس کے نٹ کھٹ
کے لمس نے میری لکیر کو بگھودیا تھا اور
میرے بدن کی طلب شدت
اختیار کرچکی تھی ۔میں نے اپنی زبان سمیر کے منہ
سے نکالی اور اسے چومنے
لگی ۔اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے میں نے
اہنے ہونٹ اسکی کشادہ
پیشانی پر رکھ دئیے اور پھر اسکے گالوں پر بوسے
دیتے ہوئے گردن پر آگئی
گردن پر بوسے دینے کیساتھ ساتھ اسکی چھاتی کے
بالوں میں ہاتھ پھیرتی
رہی اور اسکے چھوٹے چھوٹے نپلز کو چھوا باری باری.
پھر اسکے گلابی نپلز کو
منہ میں لیکر چوسنے لگی باری باری. جب میں نے
سمیر کے نپلز کو منہ
میں لیا تو وہ تڑپ اٹھا اور اس کے منہ سے لذت بھری
سسکاریاں نکلنے لگیں
۔میں چومتے چومتے سمیر کی ناف تک آگئی اور پھر
اپنی زبان کی نوک سے
اسکی ناف کو کھجانے لگی ۔ میرا ایک ہاتھ رینگتا ہوا
اسکی ناف سے نیچے گیا
اور میں نے اسکا لہراتا ہواناگ ہاتھ میں دبوچ لیا. جو
بہت بے چین ہورہا تھا۔
اف اسے ہاتھ میں لیکر یوں لگا جیسے کوئی گرم راڈ
ہاتھ میں پکڑلیا ہو۔
میرے ہونٹ ناف کے نیچے ایک ایک انچ کو چومتے ہوئے
اسکے راڈ تک جاپہنچے ۔
اب میں بیٹھ گئی اور اس کے راڈ کو ہلانے لگی اس
کی اچھی طرح جانچ کرنے
لگی اس کو سہلاتے ہوئے مجھے اس پر بے تحاشا
پیار آرہا تھا میں نے
دیوانگی کیساتھ ٹوپے کو چوم لیا تو سمیر کے منہ سے ایک
لزت آمیز سسکاری نکلی
تو مجھے اور بھی جوش آگیا اور میں نے سمیر کے
راڈ کو اوپر سے نیچے تک
بوسے دینے شروع کردئے سمیرکے ہاتھ میرے سر
پر آٹکے ۔میں نے سمیر
کے شہزادے کو چوم چوم کر تر کردیا ۔ پچھلی رات
بھی اس سے مزہ لیا تھا
اور آج تو میں بلا جھجھک اپنی سب حسرتیں پورا کرنا
چاہتی تھی. میں نے اپنی
زبان کی نوک سے اسکی اکلوتی آنکھ کو کھجایا تو
عجیب سا ذائقہ محسوس
ہوا ۔ دیکھا تو وہاں لیس دار مادے کا قطرہ چمک رہا
تھا انگلی سے مسل دیا تو
وہ سارے ٹوپے پر پھیل گیا ۔ میں ٹوپے کو منہ میں
لیکر اسکے ارد گرد زبان
پھیرنے لگی ۔ سمییر لذت کی انتہا کو پہنچا ہوا تھا اس
نے میرے سر کو نیچے کی
جانب دبایا تو اس کا راڈ آدھا میرے منہ میں آگیا
اور میں اسکو لالی پاپ
کی طرح چوسنے لگی ۔ مجھے یہ اس لیے اچھا لگ
رہاتھا کیونکہ سمیر کو
مزہ آرہا تھا ۔ اور میرے ہر چوپے کیساتھ اس کے منہ
سے لذت بھری آوازیں نکل
رہی تھیں ۔ سمیر میری رانواں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے
میری منی کو کھجانے لگا
۔ میں تو کب سے گیلی ہورہی تھی لیکر پر پھرتے
پھرتے اسکی انگلی لیکر
کے اندر گئی تو میں مزے سے تڑپ اٹھی میں نے
اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے
دانے پر رکھا تو سمیر اسکو دو انگلیوں میں لیکر
مسلنے لگا. اب میرے لئے
برداشت کرنا مشکل تھا ۔ میں نے آج سمیر کو
چودنے کی ٹھانی ہوئی
تھی ۔ اس لئے میں ایک ٹانگ اس کے اوپر سے گھماکر
اس کے اوپر آگئی ۔ اس
کا لن راڈ کی طرح سختی سے تن کر کھڑا تھا ۔ جس
کو میں نے ہاتھ میں لیا
اور اپنی ٹپکتی پھدی اس پر ٹکا کر اس کو لیکر پر
مسلنے لگی اسکا ٹوپا
گیلا ہوگیا تو میں نے چوت کو ٹوپے پر رکھا اور ہولے
ہولے نیچے اترنے لگی ۔
سمیر کے دونوں ہاتھوں نے مجھے کمر سے تھاما ہوا
تھا ۔ میں اپنی مستی
میں انچ بائے انچ لن کو اپنے اندر سموتی مزے سے
سرشار اپنی ہی دھن میں
اسکا سات انچ کا پورا لوڑا لیکر بیٹھ گئی ۔ میرے ہاتھ
سمیر کی چھاتی پر ٹکے
یوئے تھے ۔اور سمیر میرے مموں کو اپنے ہاتھوں
میں لیکر ہولے ہولے
دبارہا تھامیں سمیر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ہولے
ہولے اوپر نیچے ہونے
لگی. اس کی آنکھوں میں شہوت دیکھ کر میں لن پر
اچھلنے کودنے لگی ۔ لن
پھدی میں بڑی آسانی سے جارہا تھا ۔پھسلتے ہوئے اس
کی رگڑ سے میری چوت اس
کو بھینچنے لگتی تو ہم دونوں کے منہ سے
نکلنے والی لذت بھری
سسکاریاں کمرے میں گونجنے لگتیں ۔میری سپیڈ بڑھنے
لگی تو سمیر نے بھی
نیچے سے دھکے لگانے شروع کردئیے ۔ جس نے
مجھے اور پرجوش کردیا
اور میں تیزی سے لن کو بھینچتے ہوئے اوپر نیچے
ہونگے لگی تو مساموں سے
پسینہ پھوٹنے لگا ۔ سمیر کی پیشانی پر بھی پسینے
کے قطرے چمکنے لگے ۔
میں جھڑنے لگی تو سمیر کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ
رکھ دئے ۔ سمیر نے نیچے
سے زورا دار جھٹکے دئیے اور میرے ساتھ ہی
فارغ ہوگیا ۔ میں اس کے
اوپر ہی گرگئی ۔ ہم دونوں کی سانس کی آواز سے
کمرے کی فضا مترنم
ہوگئی اور ہمارے جنسی مواد اور پسینے کی خوشبونے
کمرے کی فضا کو خوابناک
بنادیا ۔ میں کافی دیر سمیر کے اوپر لیٹی رہی ۔
اسکا لن آہستہ آہستہ
چوت سے پھسل کر باہر نکلا تو میں سمیر کے پہلو میں
آگئی ۔ اس نے مجھے اپنے
مضبوط بازوؤں میں لے لیا اور پیار کرنے لگا ۔
مزے سے میری آنکھیں بند
ہورہی تھیں مگر مجھے سمیر سے کچھ کہنا تھا ۔
ابھی رات کافی پڑی تھی
۔ مگر ہمیں دوبارہ اور سہ بارہ یہ مزہ بھی لینا تھا ۔
میرا تو یہی من چارہا
تھا ۔ میں نے سمیر کی چھاتی کے بالوں سے کھیلتے
ہوئے کہا ۔۔ سمیر آج
صبح تم جسطرح مجھے دیکھ رہے تھے مجھے بہت اچھا
لگ رہا تھا ۔ مگر ہمیں
احتیاط کرنی ہوگی۔ سمیر۔۔۔۔ کیا کروں تم لگ ہی اتنی
پیاری رہیں تھی کہ اہنے
آپ کو روکنا مشکل ہورہا تھا ۔ میں ۔۔۔ وہ تو ٹھیک ہے ۔
تم بھی مجھے اچھے لگ
رہے تھے اور جو تم نے محسور کن کلون لگارکھا تھا
اس کی وجہ سے میرا بھی
موڈ بن گیا تھا. مگر میں نے اپنے آپ قابو رکھا ۔
کیونکہ اریبہ ساتھ
بیٹھی تھی اور وہ ہماری نظروں کو پڑھ بھی سکتی تھی. پلیز
اریبہ ہو یا کوئی اور
اپنی نظروں سے مجھے ننگا مت کردیا
کرو ۔ بلکہ اپنی چاہت
کو ظاہر ہونے سے اور لوگوں کی نظروں میں آنے سے
بچاؤ ۔ سمیر ۔۔۔ ٹھیک
ہے تمہاری بات میں دم ہے میں احتیاظ کرونگا مگر کبھی
بھول چوک ہوجائے تو
معاف کردینا ۔ میں۔۔۔۔ جانو میرا تو کوئی مسلہ نہیں میں
تو کردونگی مگر زمانہ
اور یہ دنیا ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی ۔سمیر۔۔۔۔
ٹھیک ہے جانم میں
احتیاط کرونگا۔ میں ۔ گڈ بوائے ۔ مجھے تم سے یہ ہی امید
تھی. ہاں ایک بات اور
کل جمعہ ہے۔ ابا جان شام کو آئینگے ۔ ہم یہ دو
راتیں نہیں ملینگے.
سمیر۔۔ وہ کیوں ۔ وہ تو اپنے کمرے میں ہونگے ۔ اور میں
تھوڑا لیٹ آجاؤنگا ۔ ۔
دیکھو انیلہ اب تم سے دور رہنا میرے بس میں نہیں ۔مجھ
پر کوئی پابندی مت
لگانا پلیز۔ میں ۔۔۔ جانی تم سے دور رہنا میرے لئے بھی
اتناہی مشکل ہے ۔ میں
ہی جانتی ہوں تم سے الگ رہ کر دن کا پل پل کیسے
کاٹتی ہوں. یہ تو پوری
دو راتوں کی بات ہے ۔۔ تم سے دور ہوں تو چین
ملتا ؛ تم قریب ہو تو
دل نہیں بھرتا . مگر جانی یہ بھی سوچو اس میں ہم
دونوں کی ہی بھلائی ہے
ابو جان کے یہاں ہونے سے ہروقت ہمارے
پکڑے جانے کا خدشہ
رہیگا ۔ اور ملنے ملانے میں وہ سواد نہیں آئے گا ۔
۔۔سمیر
؛ میں کوشش کرونگا ۔ مگر کوئی پرامس نہیں کرتا ۔ یہ کہتے ہوئےاس نےمجھے اپنی
بانہوں میں سمیٹ لیا اور پیار کرنے لگا. میرے انگ انگ
خوشی اور شادمانی پھوٹ
رہی تھی. اسکا لن پھر سے سر اٹھانے لگا ۔ میں نے
اٹھ کر اس کو صاف کیا
اور کپڑے سے اپنی پھدی کو بھی خشک کیا. کیونکہ
سمیر کا لاوہ اس سے
ابھی رس رہا تھا ۔ سمیر اٹھا اور مجھے نیچے گرالیا ۔اب
چودنے کی اسکی باری
تھی. اور اس نے میری وہ دھلائی کی کہ کیا بتاؤں
اس نے مجھے خوش کر دیا
اس کا ایک ایک دھکا اور جھٹکا مجھے اسکے
پیار کا سندیسہ بن کر
لگتا
.
"جیسا میں چاہوں
میرا ساجن ویسا پیار دیتا ہے
ڈال کے اندر وہ میرے دن
رات سنوار دیتا ہے
جب تک چاہوں میں ,
رکھتا ہے اندر اپنا قائم
جس پر نہ آئے خزاں وہ
ایسی بہار دیتا ہے
"
ہم نے رات کو تین بار
سکس کیا اور صبح تک بے حال ہو کر رہ گئے
تیسری بار میری مُنی
سُوجنے لگتی ہے . اور سمیر ٹائم بھی اچھا خاصا
لگاتا ہے , مجھے تھوڑی
تکلیف تو ہوتی ہے مگر مزہ بھی چوکھا آتا
ہے . تیسری بار جب بھی
سمیر میری ٹانگیں اپنے شانوں پر رکھے
میں انوکھا سواد لینے
کو تیار ہو جاتی ہوں ۔ یہ ہمارا معمول بن گیا
روز ہی سمیر رات گئے آ
جاتے ہم پیار محبت بانٹنے لگتے . کبھی ٢ بار
کبھی تین بار روزانہ
کرنا روٹین بن گئی مگر ویک اینڈ پر ابا جان گھر
ہوتےتو ہم احتیاط کرتے
۔ سمیر پھر بھی بے ایمانی کرجاتے اور کبھی اس
دوران بھی آجاتے ۔ کئی
بار انکو روکا اور ٹوکا بھی ۔مگر جب وہ یہ کہتے کہ
کیا کروں تمہارے بناء
نہیں رہ سکتا اور نہ ہی نیند آتی ہے تو میں خود
اسکو اہنا آپ سپرد کرنے
پر مجبور ہوجاتی. یہ عورت کی خوش نصیبی ہی تو
ہے کہ اسکا محبوب اس کے
بناء نہ رہ پائے ۔ میں خود کو خوش قسمت
سمجھتی اور اہنا پیار
اسکی جھولی میں ڈال کر خوشی سے پھولی نہ سماتی
۔مگر
میں کسی قسم کا رسک نہیں لینا چاہتی تھی سمیر مجھے بہت پیارا تھا
اور میں اسے کسی
اسکینڈل کی بدولت کھونا نہیں چاہتی تھی . ساسو ماں
کمرے سے شاذو نادر
نکلتی تھیں رات کو تو بلکل نہیں ؛ مگر سسّر ابا کو
میں کئی بار رات کو صحن
میں تسبیح لئے ٹہلتے دیکھ چکی تھی . یہ
اس وقت کی بات ہے جب
سمیر کے ساتھ کوئی تعلق قائم نہیں ہوا تھا
اس لئے ہفتہ اتوار کی
راتوں کو میں نے کمرے کا دروازہ اندر سے
چٹخنی لگا کر بند کرنا
شروع کر دیا . .
میں گہری نیند میں تھی
کہ میری آنکھ کھل گئی کچھ دیر تو سمجھ ہی نہ آ ئی
کہ میری آنکھ کھلنے کا
سبب کیا ہے حالانکہ میں نے کوئی ڈرونا خواب
بھی نہ دیکھا تھا ,
مجھے دروازے پر ٹک ٹک کی آواز آئی تو سمجھ آئی
کہ کوئی ہولے ہولے
دروازہ پر تھپک دے رہا ہے . سوچا کون ہو سکتا ہے
دروازہ کھولوں یا نہیں
. سمیر کو معلوم ہے دروازہ لوک ہوگا کیونکہ آج
شام کو میرے سسر ابا
گھر آئے تھے . اس لئے سمیر کے آنے کا تو کم ہی
چانس تھا . تھوڑی دیر
انتظار کرتی رہی مگر دروازے پر مسلسل ٹک ٹک
ہوتی رہی . میں اٹھ کر
دروازے کے قریب ہوئی اور پوچھا کون ہے .
میں میں ہوں سمیر .
سمیر نے آہستہ سے کہا .میں نے دروازے کا ایک پٹ
کھول کے پوچھا کیا ہوا
؟
.
ارے مجھے اندر تو آنے
دو تو بتاتا ہوں . میں دروازے سے ہٹ گئی اور
وہ دروازے کے اندر آیا
تو میں نے دروازے کے باھر جھانک کر دیکھا کہ
کہیں کوئی دیکھ تو نہیں
رہا . کوئی نہ تھا , میں نے دروازہ بند کیا اور سمیر
سے پوچھا , ہاں بولو
کیا ہوا ؟ تو اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیا .
میں نے کہا سمیر ہم بچے
تو ہیں نہیں پلیز کچھ خیال کریں ,
انیلا میں کیا کروں
مجھے یہ سونے نہیں دیتا سمیر نے کہتے ہوئے میرے
ہاتھ میں اپنا ہتھیار
پکڑا دیا . اسے چھوتے ہی مجھے کرنٹ سا لگا
وہ اتنا سخت تھا جیسے
لوہے کی راڈ اور اتنا گرم جیسے دہکتی چمنی سے
نکلا ہوا . میں وہیں دو
زانو ہو کر اسے چومنے لگی . سمیر نے کوئی اور
بات کئے بنا مجھے
بازوؤں میں بھرا اور اٹھا کر چارپائی پر لٹا دیا .
اور اپنا پاجامہ اور
میری شلوار اتار کر دور پھینک دی . اور ٹانگوں کے
درمیان بیٹھ گیا . میں
نے اپنی قمیض اور سمیر کی بنیان اتار پھینکی
اور اس کے ہتھیار کو
اپنے میں سمونے کے لئے اتاولی ہونے لگی
ادھر سمیر اپنا گرم
ہتھیار میری دہکتی چمنی میں ڈالنے
کے لئے مجھ پر چھا گیا
. ہم ایک دوسرے پر والہانہ فدا ہونے کے لئے
ایک دوسرے میں سما گئے
. ہم دونوں نے وہ وہ کھیل کھیلے جو کبھی
نہ کھیلے تھے . آخر تھک
ہار کر ہم ایک دوسرے پر گر پڑے اور میں
مدہوش سی ہو گئی . کافی
دیر بعد میری تھکن اتری تو میں جلدی سےغسل کے بعد ناشتے کی تیاری کے لئے کمرے سے
باھر آئ تو ایک سناٹا سا
تھا . حالانکہ آج ہفتہ
تھا اور رات کو میرے سسر ابو بھی آئے تھے .جن کا
معمول مسجد سے آتے ہی
ناشتہ کرنے کا تھا اور میرے ناشتہ تیار کرنے تک
وہ ایک ٢ چکر تو کچن کے لگا
لیتے تھے . آج وہ نظر نہیں آئے حتیٰ کہ
انکے کمرے کا دروازہ
بھی بند تھا , مجھے بھی آج کچھ دیر ہو گئی تھی . رات
کو سمیر نے حد ہی کر دی
تھی پتا نہیں اسے کیسا جوش چڑھا ہوا تھا کہ ایسی
چدائی اس نے آج رات سے
پہلے کبھی نہ کی تھی ٣ بار مجھے چودنے کے
بعد وہ رات کے آخری پہر
جب وہ اپنے کمرے میں گیا تو مجھ میں ہمت ہی
نہ تھی کہ کپڑے پہن لوں
یونہی مستی میں مجھے مدہوش ہو گئی تھی .
ناشتہ بنانے میں کچھ
دیری ہو گئی تھی . رات کو سمیر کے پیار کرنے
اور جتانے کے انداز کا
خیال آتے ہی میں مسکرا دیتی اور اپنی خوش قسمتی
پر نازاں ہوتی کہ مجھے
کیسا پیار کرنے والا محبوب ملا ہے. ناشتہ تیار
کرنے کے بعد میں نے
اپنے سسّر ابو کا دروازہ کھٹکھٹایا تو وہ ناشتہ کے
لئے کچن میں آ گئے وہ
وہیں بیٹھ کر ناشتہ کرتے ہیں . لیکن انکا موڈ بہت
خراب لگ رہا تھا . وہ
ناشتہ کے دوران باتیں کرتے ہیں سٹی میں میرے والدین
کا سکھ سندیسہ دیتے ہیں
مگر ان کا موڈ بڑا آف لگ رہا تھا کیونکہ آج انہوں
نے چپ سادھ رکھی تھی .
ان کا موڈ دیکھ کر میں بھی خاموش رہی .
کوئی بات کرتی تو وہ
ہوں ہاں میں بات ٹال دیتے . میں بھی پریشان ہو گئی
کہ معاملہ کیا ہے . کیا
بات ہوئی گمان کرنے لگی مگر کچھ سمجھ میں نہیں .
آیا وہ ناشتہ کر کے
اپنے کمرے میں چلے گئے . تو میں نے اریبہ سمیر اور اپنے
لئے ناشتہ تیار کیا .
وہ آئے تو میں نے دیکھا سمیر بھی کافی پریشان نظر آیا .
ان کے چہرے کا رنگ اڑا
ہوا تھا اور فکرمندی کے اثار صاف دکھائی دے
رہے تھے میں بچیں ہو
اٹھی اور ان سے پوچھا سمیر بھائی خیریت تو ہے
اتنے پریشان کیوں ہو .
تو اریبہ کی طرف دیکھ کے بولے بعد میں آ کر بتاتا ہوں
. اب مجھے ہول سے
اٹھنے لگے .وہ اریبہ کو سکول ڈراپ کرنے گئے تو
میں انکا بیچینی سے
انتظار کرنے لگی کہ وہ سکول سے واپس آئیں تومعلوم ہو کہ ایسا کیا ہوا کہ پورے گھر
کی فضا سوگوار ہے.
وہ سیدھے کچن میں ہی
آئے , میں آگے بڑھ کر حسب معمول انکے گلے
ملنے لگی تو وہ تھوڑا
سا ایک طرف ہو گئے.
کیا ہوا سمیر جو تم
اتنا پریشان ہو ؟ میں نے پوچھا .
پوچھو کیا نہیں ہوا ,
انیلا ہم کسی کو منہ دکھانے کے قبل نہیں رہے
سمیر کی آواز میں ایک
کرب جھلک رہا تھا , جس سے میں اور پریشان ہو گئی
.
میں نے تڑپ کر انکا
ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر پوچھا جان پہیلیاں نہ بجھواؤ
کیا ہوا جو تم اور ابو
بھی اتنے پریشان ہو .؟
تو سمیر نے یہ بتا کر
میرے پاؤں کے نیچے سے زمین کھسکا دی کہ آج فجر
سے پہلے جب وہ میرے
کمرے سے نکل کر اپنے کمرے کی طرف گیا تو
اس وقت ابو تہجد کے لئے
اٹھے ہوئے تھے اور انہوں نے مجھے دیکھ لیا
تھا . میں سر پکڑ کر
وہیں بیٹھ گئی جیسے میری ٹانگوں میں جان ہی نہ رہی
ہو . میں نے ہمیشہ سمیر
سے بولا کہ ہم ویک اینڈ میں جب سسّر ابو آئے
ہوئے ہوں نہ رات کو نہ
ملا کریں . مگر اس کا یہی جواب ہوتا کہ جب تک ٢
بار رات کو مجھے چود نہ
لے اسے نیند نہیں آتی . مجھے انکا یہ کہنا اچھا
لگتا تھا . مگر ڈر بھی
رہتا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم رنگے ہاتھوں پکڑے جایئں
اور آج وہی ہوا گیا جس
کا ڈر تھا
.تم نے کمرے سے نکلتے
ہوے باھر نہیں دیکھا تھا تو سمیر کہنے لگا
ابو جان وضو کے لئے
باھر نکلے تھے اور نلکے سے پانی لے رہے تھے
نلکا کمرے کے سامنے ہی
تو ہے اور وہ مجھے تمہارے کمرے سے
نکلتے دیکھ کر ٹھٹھک
گئے
.
" کون "
انہوں نے پوچھا شاید انہوں نے سمجھا ہو کہ کوئی چور وغیرہ گھر
میں گھس آیا ہے . میں
خاموش وہیں کھرے کا کھڑا رہ گیا جیسے میرے پاؤں
زمین نے جکڑ لئے ہوں .
وہ میری طرف بڑھے اور سختی سے پوچھا
کہ تم کون ہو بولتے
کیوں نہیں ہو اور یہاں کیا کر رہے ہو ؟
وہ میری طرف ہی آ رہے
تھے , میں بمشکل بول سکا ابو میں ہوں سمیر
.کچھ لمحے وہ حیرت سے
دیکھتے رہے اور پھر بولے سمیر تم , تم اس
وقت اپنی بھابھی کے
کمرے میں کیا کر رہے تھے . سمیر خاموش ہوا
تو میں نے پوچھا پھر تم
نے انہیں کیا جواب دیا , تو روہانسا ہو کر بولے
میں کیا کہہ سکتا تھا
میری تو بولتی بند ہو گئی تھی انہوں نے رنگے ہاتھوں
مجھے پکڑا تھا اور مجھ
سے کوئی اور بات بھی نہ بن سکی . تو اب کیا ہوگا
میں نے تشویش کا اظہار
کیا تو سمیر نے کہا جو ہونا ہے وہ تو ہو کر ہی
رہے گا . گر ہم اگر
دوسرے کا ساتھ دیں تو سب کچھ ٹھیک ہو جایئگا
جانو , ایک بات کا یقین
کر لو میں نے تمہارے ساتھ تعلقات شہوت مٹانے
یا اپنی ہوس کے ہاتھوں
مجبور ہو کر نہیں استوار کیے . مجھے تم اچھے
لگنے لگے تھے . میں نے
اب تک کسی سے پیار نہیں کیا تھا . مگرمیں تم سے پیار کرنے لگی ہوں میں تمہاری
محبّت کی اسیر ہوں تم میرا پہلا
اور آخری پیار ہو . میں
ہمیشہ تمہارا ساتھ دونگی اور کبھی تم سے بیوفائی
نہ کرونگی . یہ کہہ کر
میں اس سے لپٹ گئی . سمیر کچھ کے چہرے پر
طمانیت کے اثار دیکھ کر
مجھے بھی حوصلہ ملا . سمیر کھیتوں پر چلا گیا
میں ساس ماں کے لئے
ناشتہ تیار کر کے ان کے کمرے میں گئی اور انکو
ناشتہ کروایا . انہوں
نے بھی رسمی باتیں کیں سسر ابا بھی وہیں تھے
انہوں نے کوئی بات نہ
کی مگر ایک سرد مہری سی ضرور محسوس ہوئی .
میں انہیں ناشتہ کروا
کر کچن میں آئی تو خادمہ آئی آ چکی تھی . اسے کچھ
ہدایات دے کر اپنے کمرے
میں آ کر لیٹ گئی . مجھے کسی پل چین نہ آ رہا
تھا اور میں بے کل ہو
کر کروٹیں پے کروٹیں لیتی رہی . کچھ ہی دیر بعد
خادمہ کمرے میں ائی اور
اس نے بتایا کہ میرے والدین آئے ہیں . میں دہل
کر رہ گئی انکا سامنا
کیسے کر پاونگی اچانک آنے والے برے وقت کی
تصویر میری آنکھوں کے
سامنے گھومنے لگی . میں چکراتے سر کے ساتھ
اٹھی اور اپنے والدین
سے ملنے ساسو ماں کے کمرے میں گئی . ان سے
مل کر بیٹھنے لگی تو
ساس نے بولا کہ بیٹی تم ساتھ والے کمرے میں بیٹھو
ہمیں تمہارے والدین سے
کچھ باتیں کرنی ہیں . میرے والدین حالات
سے ناواقف تھے . اس لئے
وہ حیرانگی سے میری ساس اور سسر کو
دیکھنے لگے . میں ہولے
سے ہولے کر ساتھ والے کمرے میں ائی تو سمیر
بھی وہیں بیٹھے تھے .
ان سے دوسری طرف کرسی پر میں بھی بیٹھ گئی .
مجھے معلوم تھا کہ میری
قسمت کا فیصلہ ہونے والا تھا . مجھے ڈر تھا
کہ آج سے مجھے بدنامی
کی دبیز چادر اوڑھا دی جایئگی اور آبرو باختہ
عورت بن کر زندگی
گزارنے پر مجبور ہونگی . میں پریشان تھی کہ میرے
والدین کو میری بدولت
کتنی شرمندگی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے
سمیر اور میں الگ الگ
اپنی اپنی سوچوں کے جال میں بے اب ماہی کی
طرح ٹرپ رہے تھے .
ہمارے والدین ساتھ والے کمرے میں ایک دوسرے
کا حال احوال سن اور
بتا رہے تھے . کمرہ ساتھ ہونے کی وجہ سے ان کی
گفتگو با آسانی سنائی
دے رہی تھی . شاید اسی لئے ہمیں اسس کمرے میں
بیٹھنے کوکہا گیا تھا
تاکہ ہم ساری کاروائی کو سن سکیں
. کا
سسر ابو : آپ لوگوں کو
بلا بھیجنے کا مقصد یہ ہے کہ آج کچھ ایسا ہوا ہے
جس کے متعلق کبھی سوچا
تک نہ تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے . ہم معذرت
خواہ ہیں کہ آپ دونوں
کو بے وقت بلا بھیجا مگر جو کچھ ہوا وہ سب
آپکے علم میں لانا
ضروری تھا .
میرے ابو : جی آپ
بتائیں ہم سن رہے ہیں . ہماری جانب سے کوئی غلطی یا
زیادتی ہوئی ہو تو اس
کا مداوا کرنے کو بھی تیار ہیں . آپ کھل کے بات کریں .
ساس اماں : آج جو کچھ
ہوا اس پر بعد میں بھی بات ہو سکتی ہے . اس سے
پہلے کہ اس پر بات کی
جاۓ جو کچھ آپ سے ہماری
طرف سے چھپایا
گیا ہم آپ کو اعتماد
میں لے کر وہ آپ کو بتانا چاہتے ہیں آپ کو براتو ضرور محسوس ہوگا مگر یہ ہماری
مجبوری تھی کہ آپ سے یہ بات
پوشیدہ رکھی جاۓ . اور ہم نے آپ کو لا
علم رکھا . آپ اس کو ہماری مجبوری
کہ لیں یا خود غرضی کا
نام دیں .
امی جان : بہن میری جو
بات بھی ہے وہ آپ بتا دیں . اب ہم ایک دوسرے
سے جڑے ہوئے ہیں تو کچھ
پوشیدہ نہیں رہنا چاہیے اگر کوئی بات
ہم سے تعلق رکھتی ہے تو
آپ بے دھڑک بتا دیں یہ بعد کی بات ہے
کہ آپ کہان تک مجبور
تھے
.
ساس اماں : جب آپ لوگوں
نے سمیر کے ابو سے انیلا بیٹی کے لئے رشتہ
ڈھونڈنے کا کہا تھا .
تو اس وقت ہم لوگ اپنے چھوٹے بیٹے صغیر کے لئے
رشتہ کی تلاش میں تھے .
تو ہم نے سوچا کیوں نہ ہم ہی صغیر بیٹے کے
لئے رشتہ کا پیغام دیں
. سمیر کے ابو آڑھت کی بدولت آپ کے خاندان
سے واقف تھے پھر بھی ہم
نے آپ کے محلے میں اور ارد گرد اور آپ
ملنے والوں سے معلومات
کے لئے پوچھ گچھ کی اور انیلا بیٹی کے
بارے بھی معلومات لیں
تو انیلا بیٹی اس گھر کے لئے پرفیکٹ بہو
لگی . اسے جب پہلی بار
ملی اور دیکھا تو میں فیصلہ کر لیا کہ انیلا
کو ہی بہو بنا کر لانا
ہے . مگر جب صغیر سے بات کی تو اس نے صاف انکار
کر دیا کہ وہ ابھی شادی
کے لئے تیار ہی نہیں . در اصل اس کا ایک نرس
سے افیئر چل رہا تھا
اور وہ اس سے شادی کرنا چاہتا تھا . مگر وہ نرس
ہمیں ہمیں بلکل پسند
نہیں تھی چہ جائیکہ اس کو ہم بہو بناتے . میں انیلا
کو ہر حالت میں بہو بنا
کر لانا چاہتی تھی . اس میں مجھے اپنا اپ نظر اتا تھا
اور نظر اتا ہے اور اس
نے ثابت بھی کیا اور وہ میری امیدوں پر پورا بھی
اتری ہے . یقین رکھیں
میں اس سے بہت خوش ہوں .
آپ تو جانتے ہیں ہم
سمیر کا رشتہ لے کر گئے تھے . ہلکہ یہ بے جوڑ
رشتہ تھا مگر صغیر کے
انکار کے بعد ہم نے کوشش کی کہ ممکن
ہے مقدار یاوری کر
جائیں اور سمیر بھی اس رشتہ کے لئے رضامد تھا
حالانکہ اپنی مرحومہ
بیوی کی وفات کے بعد وہ شادی کے لئے رضامند
نہ ہوتا تھا مگر اریبہ
بیٹی کے لئے کوئی دیکھ بھال کرنے والا تو چاہیے
ہی تھا . جب وہ رضامند
ہوا تو 10- ١٥ رشتے اس نے ریجیکٹ کر دئیے
مگر جب گھر میں انیلا
کی بات ہوئی اور سمیر نے انیلا کی طبیعت
اسکی فطرت کے بارے جانا
اور اسکی تصویر دیکھی تو وہ تیار ہو گیا .
مگر حسب امید آپ لوگوں
نے اسکا رشتہ منظور نہ کیا اور معذرت کر لی
آپ کا یہ فیصلہ گرچہ
ہمارے خلاف تھا مگر یقین جانیں ہمیں افسوس تو ہوا
مگر آپ لوگوں سے کوئی
شکایت نہیں ہوئی . اگر ہم آپکی جگه ہوتے تو ہمارا
بھی یہی فیصلہ ہوتا .
ہمیں اریبہ کو ماں کا پیار دینے اور اسکی تربیت کے
لئے ایک مخلص خوش رو
بچوں سے پیار کرنے والی بہو چاہیے تھی .
جو کہ انیلا ہی ہو سکتی
تھی . یہاں ہم نے کچھ خود غرضی سے کام لیا .
ہم نے دوبارہ صغیر سے
رابطہ کیا . جو کہ دبئی میں تھا اور نرس بھی
دبئی ہسپتال میں کام
کرتی تھی . صغیر اسی کی وجہ سے دبئی میں کام
کر رہا تھا . ہم نے اسے
پاکستان بلایا اور میں نے اس کے پاؤں پر اپنا دوپٹہ
رکھ کر اسکی منت کی تو
اس شرط پر شادی پر راضی ہوا کہ میں اس نرس
کے ساتھ رہتا رہونگا.
کینکہ ہم نے وہیں شادی کر لی ہے . سال میں ایک ماہ
کے لئے گھر آؤنگا .
انیلا کو کبھی دبئی نہیں بلاونگا . اس سے زیادہ مجھ
سے امید نہ رکھی جاۓ . میں نے سوچا انیلا
جیسی پیاری بچی اچھے طور
اطوار کی مالک سگیر کو
بدل لے گی اور وہ نرس کو چھوڑ چھاڑ دے گا .
کیونکہ ہمیں معلوم ہے
نرس طلاق یافتہ ہے اور صغیر سے ٧-٨ سال بڑی
ہی ہوگی اس امید کو لے
کر ہی آپ لوگوں سے یہ بات چھپائی گئی
جس کےلئے ہم شرمندہ بھی
ہیں اور معذرت بھی چاہتے ہیں
. میرے ابو: اب معذرت
کا کوئی فائدہ نہیں جو کچھ ہونا تھا وہ ہو چکا
میری بیٹی کے نصیب اچھے
ہوئے تو صغیر ضرور بدل جایئگا .
امی جان : آج کیا ہوا
وہ بتائیں کیونکہ میں کافی پریشانی محسوس کر رہی ہوں
ساس اماں : بہن میری
انسان خطا کا پتلا ہے اس سے ایسے ایسے کام بھی
سرزد ہو جاتے ہیں جو
شیطان کے قیاس میں بھی نہ ہوں . انسان کبھی کبھی
جذبات کے ہاتھوں مجبور
بھی ہو جایا کرتا ہے . اس لئے ہمیں معاملے کو
جذباتی ہو کر نہیں لینا
چاہیے انسانی مجبوریوں کو مد نظر کر ہی ہم کسی
نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں
. اور مسلے کا حل بھی اسی طرح سامنے آئیگا .
اب سمیر کے ابو ہی
بتائیں کہ انہوں نے کیا دیکھا . میں ساسو ماں کی بات
سے بہت متاثر ہوئی
کیونکہ اس نے ایک طرح سے ہمری وکالت ہی کی تھی
مجھے اس سے کافی ڈھارس
بندھی سمیر کو دیکھا تو وہ بھی مطمین
نظر آیا
.
میرے سسر : جیسا کہ آپ
جانتے ہیں میں جمعہ کی شام گھر آتا ہوں اور
سوموار کی صبح واپسی
ہوتی ہے . کل شام حسب معمول میں گھر آیا
اور آج جب فجر سے پہلے
وضو کے لئے پانی لے رہا تھا تو آدمی
انیلا کے کمرے سے نکلا
, میں نے اسے للکارتے ہوئے پوچھا کون ہے؟
میں سمجھا تھا کوئی چور
گھر میں گھس آیا ہے . میں نے دوبارہ پوچھا
مگر وہ خاموش وہیں کھڑا
رہا . اندھیرا ہونے کی وجہ سے اسے پہچاننا
بھی مشکل تھا . میں
اسکی جانب بڑھا اور دوبارہ اس سے پوچھا کہ وہ
کون ہے اور یہاں کیا کر
رہا ہے . ابو میں سمیر ہوں اس نے جواب دیا
یہ جان کر مجھے دھچکہ
سا پہنچا ؛ سمیر تم ؛ تم اس وقت
بھابھی کے کمرے میں کیا
کر رہے تھے . سمیر نے
کوئی جواب نہیں دیا اور
سر جھکاۓ کھڑا رہا . میں غصہ میں اندر گیا
اسکی امی کو بتایا .
میں تو غصہ سے کانپ رہا تھا اور سوچ رہا کہ سمیر
کے خلاف کوئی قدم
اٹھاؤں . مگر سمیر کی امی کبھی بھی جذباتی ہو کر نہیں
سوچتی اس نے مجھے کہا
کہ جذباتی ہونے کا کوئی فائدہ نہیں . ابھی تو ہم یہ
بھی نہیں جانتے کہ ان
کے تعلقات کس حد تک ہیں کہیں کوئی زبردستی یا
زیادتی تو نہیں ہو رہی
. سمیر ٣ سال سے رنڈوا ہے اور انیلا بھی 4-٥ ماہ
سے اپنے خاوند سے الگ
ہے . دونو کو مواقع بھی دستیاب ہیں تو ایسے
غلطی ہو جاتی ہے .
جذباتی ہو کر انہیں سزا دینے کی بجاۓ ہمیں ان
کے جذبات کو اور مجبوری
کو بھی دیکھنا چاہیے . پھر اس نے ہی مجھے
کہا کہ آپ لوگوں کو بلا
کر اس مسلہ کو ڈسکس کرنا ہوگا . اب آپ ہی
راۓ دیں اب یہ مسلہ کھڑا
ہو گیا ہے تو اس کا حل تو نکالنا ہی ہوگا .
ابو جان : ہم کیا بول
سکتے ہیں جو بھی فیصلہ کرنا ہے آپ لوگوں نے ہی کرنا
ہے . ا بیٹی کا نصیب آپ
کے فیصلے کے مطابق جو بھی ہوگا ہمارے لئے
اسے قبول کرنے کے سوا
کوئی چارہ کار بھی تو نہیں ہے .
ساسو ماں : بھائی صا حب
غلطی صرف بچی ہیکی نہیں سمیر کی بھی ہے
ہو سکتا ہے سمیر کی
زیادہ ہو کیونکہ وہمرد ہے انیلا کے کمرے میں سمیر
گیا تھا . ایک اور بات
انیلا جیسی آپ کی بیٹی ایسی ہی ہماری بیٹی بھی ہے
اب مسلہ یہ ہے کہ ان
دونو نے اس گھر میں اکٹھا رہنا ہے . ہییہ دوبارہ کوئی
ایسی غلطی کریں اس کے
سد باب کے لئے کیا کیا جاۓ . انسانی نفسیات
کے مطابق وہ ایک ڈر یا
خوف ہوتا ہے اس سے تو نکل چکے ہیں . آپ لوگ
سوچیں کوئی حل نکالیں .
میرے پاس ایک مناسب حل ہے مگر پہلے آپ لوگوں
کی رہے جاننا چاہونگی .
یہ سن کار میں سمیر اور سمیر نے میری طرف
دیکھا تو ہم آنکھوں ہی
آنکھوں میں مسکرا دئیے سچ تو یہ ہے کہ ساس ماں
کی بات سن کر ہم پر
امید ہوگئے . مختلف ارا کے بعد ساس ماں نے جو
تجویز دی اسے ہی
پذیرائی ملی . اس سے یہ میں اپنی ساس ماں کی دانش
مندی اور معاملے کو
سلجھانے کی صلاحیت کی معترف ہو گئی .
ساس ماں کا خیا ل یا
تجویز تھی کہ صغیر کو یہاں بلایا جاۓ گر وہ چاہے
تو اپنی وائف نرس کو
ساتھ لیتا آئے . اور انکی دوسری شادی کا بھی سب
کو معلوم ہو جایئگا .
انیلا اس سے طلاق کا مطالبہ کرے اور صغیر انیلا
کو طلاق دے دے . پھر
عدّت کے بعد سمیر اور انیلا کا نکاح کر دیا جاۓ .
آپ بھی بیٹی سے پوچھ
لیں ہم بھی سمیر سے مشورہ کر لیں گے . یہ صرف
ان دونوں کے مسلے کا حل
نہیں بلکہ اریبہ بیٹی کے مستقبل کا بھی سوال ہے
جس طرح انیلا اریبہ کے
قریب ہے اور جس طرح اسکی دیکھ بھال کر رہی ہے
اگر اریبہ کی ماں حیات
ہوتی تو وہ بھی اس سے زیادہ نہ کر پاتی . اس لئے
میرا مشورہ تو یہی ہے .
. یہ سن کر سمیر اٹھ کر میرے قریب آیا
اور گھٹنوں کے بل کھڑے
ہو کر میرے ہاتھ کو پکڑ کے کہنے لگا
کہ جانم اب فیصلہ
تمہارے ہاتھ میں ہے کیا تم مجھ سے شادی کرو گی
"نہیں ؛ میں کسی
بوڑھے سے شادی نہیں کر سکتی " کہتے ہوے
میں اس سے لپٹ گئی اور
میری آنکھوں میں آنسو آ گئے وہ میرا ہاتھ
پکڑے میرے ساتھ والی
کرسی پر ہی بیٹھ گئے . صاف ظاھر ہے ہم
بہت خوش تھے . ہماری دل
مراد پوری ہونے جا رہی تھی
. ہمارے پاؤں کے نیچے
سے زمین تو تب کھسکی جب ہمیں دوسرے کمرے
میں بلایا گیا . ہم
دونو مجرموں کی طرح سر جھکاۓ کمرے میں جا کر بیٹھ
گئے . میں نے کسی کی
طرف دیکھا نہ ہی مجھ میں کسی سے نظریں ملانے
کی ہمت تھی . میری ساس
بولی تم دونو نے ساری بات تو سن ہی لی ہوگی
تم دونوں سے ہم کو نہ
کوئی صفائی درکار ہے نہ ہی کسی قسم کی وضاحت .
کی ضرورت . بالغ ہونے
کی بدولت تم دونوں اپنے اچھے برے کی تمیز
رکھتے ہو . مگر کچھ
باتیں یا عمل ایسے بھی ہوتے جن کے کرنے یا ہونے
سے دوسروں کی زندگی
متاثر ہوتی ہے جس کا رد عمل بھی سامنے آتا ہے .
ہمیں نہیں معلوم نہ ہی
ہم جاننا چاہتے ہیں کہ یہ سلسلہ کب شروع ہوا ہاں
یہ کلیر ہے کہ جو کچھ
ہوا وہ اچھا نہیں ہوا . ہم تم دونوں کے والدین ہیں
تم دونوں اور دونوں
خاندانوں کی بھلائی کے لئے کچھ اقدامات کرنے
کی ضرورت محسوس کی اور
کافی سوچ بچار کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے
ہیں کہ
.
انیلا آج اپنے والدین
کے ساتھ اپنے میکے چلی جایئگی . اگلے ہفتہ صغیر
دبئی سے آ جایئگا تو وہ
انیلا کو طلاق دے دیگا . اور عدّت کے بعد سمیر
انیلا کو بیاہ لیے اور
انیلا واپس اپنے گھرلوٹ کر آجائیگی . تم لوگوں کے
پاس کوئی اور تجویز ہو
تو بتاؤ ورنہ ہمیں تو اس کے علاوہ کوئی راستہ
نظر نہیں اتا ؛ کہ سانپ
بھی مر جاۓ اور لاٹھی بھی بچ جاۓ . ہم دونو کے
پاس خاموشی ہی ایک
بہترین جواب تھا سو ہم خاموش ہی رہے .
ظہرانے کے بعد جب اریبہ
سکول سے واپس آئ تو اسے مل کر
میں نے اپنی ساس کے
کمرے میں جا کر ان کے بہترین فیصلہ کی داد
دیتے ہوئے انکے پاؤں
چھوئے اور ان سے شرمندگی کا اظہار اور
معافی مانگی اور اپنے
والدین کے ساتھ میکے آ گئی
میں جب صغیر سے بیاہ کر
اپنے سسرال گئی تھی میرے جذبات و احساسات نہ
ہونے کے برابر تھے. میں
نے وہ شادی صرف اور صرف اپنے والدین کی
خواہش پر کی تھی ۔ میں
صغیر حسن سے شادی پر نہ تو خوش تھی اور نہ ہی
رنجیدہ میں بچپن سے ہی
ایسی تھی یعنی لاپرواہ سی. جوکچھ ہورہا ہو, ہوتا
رہے میں سنجیدہ نہیں
لیتی تھی ۔ نہ کو ئی چاہے جانے کا جذ بہ تھا نہ ہی
کو ئی چاہت کا مرکز بن
سکا ۔ شادی ہوئی. سہاگ رات گزری اور دوماہ میرا
شوہر میرے پاس رہا مگر
میں یہ سب کچھ ایک ہونی سمجھ کر کرتی رہی. اس
میں میری اپنی خواہش نہ
شامل ہوسکی ۔ یہ سب کچھ ایک فرض سمجھ کر
خوشدلی سے کرتی رہی ۔
حتی کے صغیر حسن کے واپس جانے کا بھی کوئی
اثر نہیں لیا ناہی اس
کے لئے رنجیدہ ہوئی اور نہ ہی اسکے جانے پر خوشی
ہوئی ۔ زندگی یونہی بے
حسی میں گزر جاتی اگر میرے جیٹھ سمیر حسن نہ
ہوتے ۔ پتہ ہی نا چلا
ان چھ ماہ میں کیسے انکی جانب کھنچتی چلی گئی ۔اب
کہہ سکتی ہوں کہ جو کچھ
بھی ہوا اسکی شروعات نادانستگی میں ہوئیں ۔ آج
بھی وہ لمحہ مجھے اچھی
طرح یاد ہے جب میں ٹرے میں انکے لیئے کھانا لیکر
گئی تھی.
ٹرے میں دو چار ڈشز تھیں اور میں نے ٹرے کو مضبوطی سے
پکڑ
رکھا تھا ۔ ایسے میں
سمیر بھائی نے میری مدد کرنا چاہی اورٹرے پکڑنے کی
کوشش میں نادانستگی میں
انکے ہاتھ میرے ہاتھوں پر آگئے تو انکے لمس سے
میرے بدن میں ایک عجیب
سی سنسناہٹ سی ہوئی تھی جو اس سے پہلے میں
نے کبھی محسوس نہ کی
تھی ۔ ایک کرنٹ سا جسم میں دوڑ گیا ۔ میں نے جلدی
سے ٹرے ٹیبل پر رکھنے
کی کوشش کی تو انکے ہاتھ میرے ہاتھوں کو چھوڑ
نہیں رہے تھے میرے خیال
میں وہ ڈر رہے تھے کہ کہیں ٹرے گر نہ جائے ۔
میں نے انکی طرف دیکھا
تو انکی نظریں میرے چہرے پر ہی تھیں تو میں نے
کہا بھائی جان اپنے
ہاتھ ہٹالیں تو انہوں نے جلدی سے میرے ہاتھ چھوڈ دئیے ۔۔
میں ٹرے رکھ کرسیدھی
ہوئی اور انکی جانب دیکھا تو وہ مجھے ہی دیکھے
جارہے تھے ۔۔ میں جلدی
سے کمرے سے نکلی اور اہنے کمرے میں پہنچی تو
ایک نیا احساس جنم لے
چکا تھا ۔ یہ پہلی بار ہوا کہ کسی کے چھونے سے میں
نے عجیب سا محسوس کیا .
ابھی تک میرے ہاتھوں پر انکا لمس ایسے
محسوس ہورہا رھا جیسے
میرے ہاتھ ابھی بھی انکے ہاتھوں میں ہوں. میں
حیران تھی کیونکہ اس سے
پہلے میں نے کبھی بھی ایسا محسوس نہیں کیا تھا.
میں سوچنے لگی وہ مجھے
کن نظروں سے دیکھ رہے تھے پہلے تو کبھی
انہوں نے مجھے ایسے
نہیں دیکھا تھا ۔۔انکا کھانا لے جانے سے پہلے میں نہائی
تھی اور میرے گیلے بال
میرے شانوں پر کھلے ہوئے تھے مگر میں نے دوپٹہ
اچھی طرح لیا ہوا تھا ۔
انکے ہاتھوں کا لمس اور انکی نظروں کی تپش ابھی
تک محسوس ہورہی تھی کہ
مجھے خیال آیا کہ کہیں سمیر بھائی مجھے غلط
نظر سے تو نہیں دیکھ
رہے تھے. یہ خیال آتے ہی مجھے اپنے چہرے پر انکی
نظریں ٹکی ہوئی محسوس
ہوئیں تو میں بے ساختہ شرماگئی ۔ جیسے وہ اب بھی
دیکھ رہے ہوں ۔ اس دن
میں نے پہلی بار کسی کے بارے سوچنا شروع کیا تو
وہ سمیر بھائی ہی تھے ۔
پھر ایک ہی گھر میں ساتھ رہنے کی وجہ سے روز ہی
کوئی نہ کوئی ایسی بات
ہوتی رہی کہ میں انکی جانب بڑھتی گئی اور پھر ایک
وقت ایسا بھی آیا کہ
میں ان کے ایک ٹچ کے لئے انکے قریب سے گزرتی یا.انکے ہاتھوں میں کوئی چیزایسے دیتی
کہ انکے ہاتھ کم ازکم میرے ہاتھوں کو
لازمی ٹچ کریں ۔ انکا
لمس مجھے کسی مقنطیسی کشش کی طرح اپنی جانب
کھینچتا ۔ اور پھر جس
دوپہر میں انکی گود میں بیٹھی تو میں انکی ہوچکی تھی
میرا تن میرا من سب کچھ
انکا ہوچکا تھا ۔ میں جان چکی تھی کہ اگ دونوں
طرف ہے برابر لگی ہوئی.چاہت
کا جب مزہ ہے کہ وہ بھی ہوں بے قرار
دونوں طرف ہو آگ برابر
لگی ہوئی ۔
میں شادی شدہ تھی اس
لئے کچھ جھجک تو ریی تھی مگر خود کو بے بس سمجھ
رہی تھی. اور انکے ایک
اشارے کی منتظر تھی. اور جس رات پہلی بار سمیر
میرے کمرے میں آیا تھا
تو میں نے ہنسی خوشی رضامندی سے اپنا آپ اس کے
سپرد کردیا تھا ۔۔ میں
نے صغیر کو اپنی قسمت تو مان لیا تھا مگر وہ میری
چاہت نہ تھی ہم دوماہ
اکٹھے رہ کر بھی ایک دوسرے کو نا سمجھ سکے تھے.
اور میرا خیال ہے ہم
دونوں نے ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں
کی ۔ اسکی موجودگی میں
بھی خود کو ادھورا سمجھتی اور ایک خلا سا
محسوس ہوتا مگر سمجھ نہ
سکی کہ میں کیا چاہتی ہوں اس لئے اپنی قسمت
کیساتھ سمجھوتہ کرچکی
تھی میں. مگر اس ایک ٹچ نے میری زندگی بدل دی
اور مجھے ایک انجان
راستہ دکھایا جس پر چلتے ہوئے میں لطف و سروور کی
پرلطف وادیوں میں بڑھتی
چلے گئی ۔ میں سب کچھ بھول کر سمیر کی ہوتی
چلی گئی حتی کہ میں خود
سے بھی بیگانہ ہوگئی ۔ مجھے اقرار ہے کہ وہ میری
چاہت ہے ہاں ہاں وہ
میری محبت ہے اور وہ مجھے خود سے بھی پیارا ہے ۔
اور اب حالات اس نہج پر
مجھے لے آئے ہیں کہ میں اپنی چاہت کو ہمیشہ کے
لئے پانے والی ہوں ۔ اس
کی ہوکر میں مکمل ہو سکونگی ۔اسے پاکر ہی میں
منزل پر پہنچ سکونگی.
مگر اس کی عارضی جدائی بھی میرے لئے سوہان روح
بنی ہوئی ہے. چند دن تو
ہم ٹیلی فون کرلیتے تھے , ۔
ایک ہفتہ بعد صغیر اپنی
بیوی شکیلہ (نرس) کو لیکر گھر آگیا تو میرا میکے
آنے کا جواز پیدا ہوگیا
کہ صغیر تو پہلے سے شادی شدہ ہے اور مجھے طلاق
چاہیے ۔ طلاق کے مطالبے
کیساتھ ہی اسکا گھر چھوڈدیا ۔ اپنے آنے کے چند
دن بعد ہی صغیر نے مجھے
طلاق نامہ بھجوادیا جس بعد میری عدت شروع
ہوگئی ۔ اور میرے
والدین نے مجھے سمیر سے فون پر بات کرنے سے بھی منع
کردیا. میں اپنے والدین
کی ممنون تھی کہ جب وہ مجھے گھر لیکر آئے تو
مجھے ڈر تھا کہ وہ گھر
پہنچ کر میری درگت بنائیں گے. مگر انہوں نے مجھ
سے کوئی سوال جواب تک
نا کیا. میں سمجھتی ہوں کہ میری ساس کی مدبرانہ
گفتگو اور دلیل سے ہم
سب کے لئے آسانیاں پیدا ہوگئیں تھیں ۔ اب جب میرے
والدین نے مجھے فون سے
منع کیا تو میں نے انکی بات کو ترجیع دی مگر میں
خود سمیر کے لئے بے چین
رہنے لگی. میرا حال کسی بھی ٹین ایجر لڑکی
سے مختلف نہ تھا جو
اپنی پہلی محبت کے لئے بے چین اور بے قرار رہتی ہے
اور سچ تویہی ہے کہ
سمیر میری پہلی محبت ہی تو تھا ۔ میں اپنے آپ کو
سمجھانے کی کوشش کرتی
کہ زیادہ سے زیادہ چھ ماہ ہی تو ہیں پھر سمیر ہوگا
اور میں ہونگی ۔ یہ
یقین ہوتے ہوئے بھی میرا دل سمیر کے لئے بے قرار رہتا ۔
میں اسے خط لکھتی اور
پھاڑ دیتی ۔ ٹین ایجر محبت کو پپی لو puppy لوو
کہتے ہیں مگر میں میچور
ہوں محبت نہیں بلکہ عشق کررہی ہوں سچی مجھے
سمیر سے عشق ہوگیا تھا
مئینوں رب دی سوں تیرے
نال پیار ہوگیا
وے چنا سچی مچی
تیری یاد اچ دل بے قرار
ہوگیا
وے چنا سچی مچی
.
میں یوں ہی سمیر کی یاد
میں گنگناتی اور ٹھنڈ ا آہیں بھرتی رہی .
دو ہفتوں کے بعد میرے
سسر اریبہ کو ویک اینڈ پر میرے پاس چھوڑ جاتے
جس سے میرا دل بھی لگ
جاتا اور اریبہ بھی خوش ہوجاتی ۔ یوں پانچ ماہ گزر
گئے ۔ عدت ختم ہونے پر
ایک اور مصیبت کھڑی یوگئی ۔ میرے چچا لوگوں
سے جو تعلقات ختم ہوچکے
تھے میری طلاق کے معاملے پر دونوں بھائیوں
کے درمیان کشیدہ تعلقات
کی برف پگھلی اور آہستہ آہستہ ایک دوسرے کی
طرف آنا جانا شروع
ہوگیا ۔ میں جب میکے آئی تھی تو وہ سب ملنے آئے تھے
اور جب طلاق ہوئی تو افسوس
کے لئے بھی آئے تھے. میرے سابقہ منگتیر کی
شادی پھپھو کی بیٹی سے
ہوئی تھی انکی آپس میں نا بن سکی یا دونوں کے
والدین نے نا بننے دی.
کیونکہ میرے چچا بہت ضدی طبعیت کے اور پھپھو بھی
بہت سخت مزاج ہیں ۔ بہر
حال پھپھو کی بیٹی روٹھ کر اہنے میکے بیٹھی ہوئی
تھی ۔ اب میرے چچا نے
میرے ابو پر ڈورے ڈالنے شروع کئے کہ انیلہ کا
رشتہ انکے بیٹے سے
کردیا جائے ۔ مجھ تک بات پہنچی تو میں نے اپنی امی
سے صاف صاف کہ دیا کہ
شادی کرونگی تو صرف سمیر سے اس کے علاوہ
کسی کا نام میرے سامنے
نہ لیا جائے ۔ ابو نے چچا سے ایک ہفتہ کی مہلت
مانگی تھی اور میرے لئے
یہ ایک ہفتہ کسی عذاب سے کم نہ تھا ۔ میرا کھانا
پینا چھوٹ گیا اور رنگ
زرد پڑگیا ۔ میری امی کو اس کا احساس تھا اور انہوں
نے ابو کو قائل کرلیا
کہ انیلہ کے لئے سمیر ہی بہتر ین رشتہ ہے ۔ میری پھپھو
کی بیٹی ابھی تک عمیر
کے نکاح میں تھی اور اگر میرے ابو اپنے بھائی کو
میرے رشتہ کے لئے ہاں
کردیتے تو اپنی بہن سے رشتہ میں میں تعلقات میں
خرابی پیدا کرلیتے اس
لئیے ابو نے اپنے بھائی کو رشتہ سے جواب دے دیا ۔
اور ایک بلا میرے سر سے
ٹل گئی ۔ورنہ میں سوچ چکی تھی کہ اگر زبردستی
کی گئی تو میں بغاوت کر
دونگی اور سمیر سے کہونگی کہ مجھے اپنے
ساتھ لے جائے ۔ مگر شکر
ہے اسکی نوبت نہیں آئی دوسرے ہفتہ سمیر لوگ
آئے اور انہوں نے شادی
کی تاریخ مقرر کی اور چلے گئے ۔ شادی دو ہفتوں بعد
ہونا قرار پائی تھی.
میں بہت خوش تھی اور میرے پاؤں زمین پر نہیں ٹکتے
تھے ۔ مگر دو ہفتے
گزارنا محال ہوگیا ۔ سمیر سے ایک ایک پل کی دوری
مجھے کھانے کو دوڑتی
مگر میں مجبور تھی اور وقت مقررہ تک مجھے اس
جدائی کو سہنا تھا ۔
آخر وہ دن آپہنچا اور میرا سمیر بارات لیکر مجھے بیاہنے
آپہنچا ۔ میرے بدن میں
مسرت و شادمانی کی لہریں دوڑنے لگیں مجھے اسکے
ساتھ گزارہ ایک ایک پل
یاد آنے لگا اور میں مچل مچل اٹھی اور ایسا لگا کہ
پہلی بار ڈولی میں بیٹھ
کر اپنے پیا کے دیس جارہی ہوں ۔ پہلی شادی کے وقت
تو میں کسی بھی قسم کے
احساسات سے عاری تھی مگر آج تو میں شادی میں
دل وجان سے شریک تھی ۔
میرےجذبات و احساسات میرے دھڑکتے دل سے ہم
آہنگ تھے والدین اور
بھائیوں سے الوداع ہوکر جب میں کار میں بیٹھی تو
میرے ایک طرف اریبہ تھی
درمیان میں میں بیٹھی تو پھر میرے ساتھ میرا سمیر
بیٹھا ۔ انکا جسم میرے
بدن کیساتھ ٹچ ہوتا گیا تو میں خوابوں میں کھوگئی ۔ سمیر
نے میرا ہاتھ اپنے
ہاتھو میں لے لیا اور ہولے ہولے دبانے لگے ۔ اریبہ بھی
چہک رہی تھی. آج وہ بار
بار مجھے امی کہ کر پکارتی تو میں خوشی سے
سرشار ہوجاتی ۔ سمیر کا
ساتھ اور سب کے سامنے ساتھ ہونے سے مجھے
بہت حوصلہ ملا ۔ سارے
راستے سمیر میرا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لئے سہلاتا رہا
۔
اور میرا دل کررہا تھا کہ یہ سفر کبھی ختم نہ ہو مگر میرے بدن کا تقاضا تھا
کہ کب شام ڈھلے اور
تنہائی میسر ہو ۔۔۔شام کے وقت ہم گھر پہنچ گئے تھے ۔میں دوسری بار اس گھر میں دلہن
بن کر
آئی تھی. میری ساس اور
نند بہت خوش تھیں ۔ صغیر کی نرس بیوی بھی شادی
میں شرکت کے لئے آئی
تھی ۔ لوگوں نے باتیں تو بہت کی ہونگی کہ پہلے ایک
بھائی سے بیاہی گئی پھر
دوسرے بھائی سے ۔ مگر مجھے کوئی پرواہ نہیں
تھی. کہ کوئی ہمارے
بارے میں کیا سوچتا ہے ۔میرے خیالوں پر صرف سمیر
قابض تھا جس کی بیوی
ہونے پر مجھے خواب کا گمان ہورہا تھا کھانے وغیرہ
سے فارغ ہوکر باراتی
اپنے اہنے گھروں کو چلے گئے اور جو دوور کے رشتہ
دار رہ گئے تھے انکے
سونے کا بندوبست کرکے جب سمیر کمرے میں داخل
ہوئے تو میرے دل کی
دھڑکن بے قابو ہونے لگی. میں روائتی دلہنوں کی طرح
گھونگھٹ نکالے نا بیٹھی
تھی ۔ سمیر آئے اور سلام کرکے میرے پاس بیڈ پر
بیٹھ کر مجھے دیکھنے
لگے ۔ انکی نظروں کی تاب نا لاکر میں نے شرما کر
گردن جھکالی تو انہوں
نے میری ٹھوڑی کو اپنی انگلیوں سے اوپر اٹھایا میں
نے آنکھیں بند کرلیں ۔
کچھ ہی لمحوں کے بعد میرے لبوں نے انکے ہونٹوں کی
گرمی محسوس کی تو میں
نے نے بھی ان کے لبوں کو گرم جوشی سے چوم لیا
۔
کل میرے لئے جو ممنوعہ شجر تھا آج اس کا پھل میرے لئے جائز ہوچکا تھا ۔
یہ خیال آتے ہی میں نے
اپنے آپ کو انکی آغوش میں گرادیا. انہوں نے مجھے
اپنے مضبوط بازوؤں میں
لیا اور گردن پر بوسے لینے شروع کردئیے ۔ انکے
ہاتھ میری کمر پر گردش
کررہے تھے ۔ اور میں ہولے ہولے انکی شیروانی کے
بٹن کھولنے لگی ۔ انیلہ
شادی مبارک ہو ۔ سمیر مجھے چومتے ہوئے بولے ۔
آپکو بھی مبارک ہو جانی
میں نے کہا ۔ تو وہ بولے کیوں نہ جانم ہم چینج کرلیں ۔
یہ بھاری ملبوسات
اتارہی دیں تو بہتر ہے میں نے انکی طرف دیکھا تو انکی
آنکھوں میں شرارت
جھلکتی دیکھ کر میں شرماگئی اور اٹھ کر باتھ روم کی
طرف جانے لگی تو انہوں
نے کہا کہاں جارہی ہو تو میں نے کہا چینج کرنے تو
انہوں نے میرا بازو پکڑ
کر مجھے بیٍڈ پر گرالیا اور میرے کرتی لہنگے کی
طرف ہاتھ بڑھادیا ۔ میں
نے انہیں منع کرنا مناسب نا سمجھا اور خود بھی انکی
شیروانی کے بقایا بٹن
کھولنے لگی ۔ انہوں نے میری کرتی اتاردی اور میری
گردن اور شانوں کو
چومنا شروع کردیا ۔ اتنے میں انکی شیروانی کھل گئی تھی
انہوں نے اسے اتارنے
میں میری مدد کی اور مجھے کھینچ کر اپنے سینے سے
لگالیا ۔ میں نے سکون
کا سانس لیا ایسے لگا ناجانے کتنی مدت کی حسرت
پوری ہوئی ۔ کافی دیر
میں یونہی انکے ساتھ لپٹی رہی ۔ انکے ہاتھ آہستہ آہستہ
میرے کمر بند کی طرف
بڑھنے لگے ۔ میں نے انکی ہیلپ کی اور انہوں نےمیرا لہنگا اتار دیا ۔ اب میں صرف
پاجاما اور برا میں تھی ۔ میں نے انکی قمیض
اتار کر انکے پاجامے کی
طرف ہاتھ بڑھایا ۔ میرا ہاتھ اتفاقا انکے راڈ سے
جاٹکرایا جو کہ اکڑ کر
کھڑا ہوا تھا میرے بدن میں چنگارہاں سی لگنے لگیں ۔
میں نے انکا ازار بند
کھولا اور پاجاما نیچے کھسکایا تو انہوں نے پاجاما ٹانگوں
سے اتار کر نیچے پھینک
دیا ۔ اب وہ صرف انڈروئیر میں تھے اور انڈر وئیر
ایک تنبو کی طرح تن کر
کھڑا تھا۔میں اسے دیکھتے ہوئے اپنے ہونٹوں پر زبان
پھیرتی بیٍڈ سے اٹھی تو
سمیر نے میرا ہاتھ پکڑ لیا تو میں نے انکو اپنی چھوٹی
انگلی دکھائی تو وہ
مسکراتے ہوئے او کرکے رہ گئے ۔ آج میں انکے کمرے
میں تھی بلکہ اپنے اصل
کمرے میں اپنے پریمی شوہر کیساتھ تھی میں باتھ روم
میں گئی اور فارغ ہوکر
باہر آئی تو دیکھا سمیر انڈوئیر اتار کر میرا انتظار
کررہے تھے. انکا ہتھیار
سیدھا کھڑا چھت والے پنکھے طرف رخ کئے مجھے
اکسانے کا موجب بن رہا
تھا ۔ میں نے بیڈ کے پاس جاکر اپنا پاجاما بھی اتار دیا
اور سمیر کیساتھ ہی
ڈراز ہوگئی ۔ سمیر نے مجھے اہنے سے چمٹالیا اور
چومنے لگے ۔ میں اسکی
پیٹھ اور کولہوں پر ہاتھ پھیرنے لگی ۔ ہم دونوں ایک
دوسرے کی طرف منہ کئیے
پہلو کے بل لیٹے ہوئے تھے ۔ اسکا شرارتی بلا
میری ٹانگوں سے ٹکراتا
میری بلی کی تلاش میں سرگرداں تھا ۔ میں نے اس کو
ہاتھ میں پکڑا تو میرے
سارے بدن میں ایک شہوت کی لہر دوڑ گئی میں نے
اسے تھوڑا سادبایا اور
رانوں میں اپنی بلی کے اوپر رکھا تو سمیر آگے پیچھے
ہلنے لگا ۔ میں نے ابھی
پینٹی پہنی ہوئی تھی سمیر نے ہاتھ سے کھینچ کر نیچے
کی تو میں نے اسے اتار
کر نیچے پھینک دیا ۔ سمیر نے میری برا بھی اتار دی
اب میں بھی سمیر کی طرح
مادرزاد برینہ ہوگئی سمیر نے تھوڑا اوپر ہوکر
میری پیشانی چومی اور
پھر میری آنکھوں اور گال کو چومتے ہوئے ہاتھوں
سے میرے یونٹ مسلنے لگے
اور پھر گردن پر بوسوں کی بارش کردی ۔ میں
نے مستی میں اپنی ٹانگ
سمیر کی ٹانگوں کے اوپر رکھی تو بلے کو بلی سے
ملنے کا موقع مل گیا
۔بلے کی لمس سے بلی گیلی ہوگئی اور اسکے ہونٹ بھیگ
چکے تھے بلی کے دہن سے
لعاب نکلنے لگا تو بلے کو بلی کو رگڑنا آسان
ہوگیا ۔ سمیر میرے ایک
ممے کو منہ لیکر چوسنے لگا اور دوسرے کے نپل کو
ہاتھ سے مسلنے لگا تو
میں مستی میں اسکے اور قریب ہوئی. سمیرنے میرے
چوتڑوں کو پیچھے سے
دباکر اپنے اور قریب کیا تو ٹوپا بلی کے دانے پر آ لگا
۔
میں نے اسکو ہاتھ سے پکڑا اور نیچے سے خود ہل کر اپنے دانے پر رگڑنے
لگی ۔ سمیر نے میری ناف
پر بوسہ دیا اور ناف میں زبان ڈال کر اسے کھجانے
لگا تو میرے بدن نے ایک
جھرجھری لی اور میں تڑپ کر رہ گئی اس نے ہاتھ
بڑھا کر میری چوت کے
دانے کو مسلا تو میں تڑپ کررہ گئی اسکی انگلی
چوت کی لکیر کو کھجانے
لگی۔ وہ ناف سے نیچے چومتے ہوئے میری پھدی
کی طرف آنے لگا تو میں
نے اسکا سر بالوں سے پکڑ کر اسے روکنا چاہا ۔
اسکے گرم ساننس میری
چوت سے ٹکرائے تو میں بے کل سی ہوگئی چوت
کے دانے پر جب سمیر کی
زبان کی نوک لگی تو میرا اوپر کا سانس اوپر اور
نیچے کا سانس نیچے رہ
گیا. میں تڑپ کر اٹھی اور اسکا سر وہاں سے اٹھاکر
کہا ۔آپ یہ کیا کررہے
ہو تو وہ کہنے لگے یہ سہاگ رات کو تحفہ ہے تمہارے
لئے ۔ میں تمہارا رس پی
کر تمیں آج وہ سواد دونگا جو تم کو پہلے کبھی نہیں
ملا ہوگا۔ اور اس طرح
میں چاہتا ہوں ہماری سہاگ رات یادگار بن جائے ۔ لیکن
سمیر یہ گندی ہے اور اس
سے بدبو آرہی ہوگی. میں نے اسے قائل کرنے کیکوشش کی ۔ مگر وہ تو اسے چاٹنے کی ٹھان
چکا تھا ۔ میں لیٹ گئی تو وہ میری
ٹانگوں کے درمیان آکر
بیٹھ گیا اور میرے چوتڑوں کو ہاتھوں سے اوپر اٹھاکر
زبان میری چوت پر رکھ
دی ۔ مجھے بہت شرمندگی سی محسوس ہوئی مگر
چند لمحوں کے بعد میں
لذت سے تڑپنے لگی اور میں لذت کی انتہا پر اپنے
چوتڑے اس کے ہاتھوں پر
پٹخنے لگی اور سمیر میرے بہتے رس کی چسکیاں
لیتا رہا میرا برا حال
ہوگیا اور میں بن ماہی کی مچھلی کی طرح تڑپنے اور
پھڑکنے لگی اس لذت سے
میِ نا آشنا تھی آج تک ۔ مگر سمیر نے مجھے لذتوں
کی انتہا دکھادی میں سر
پٹختے منزل ہونے لگی تو میری پھدی نے اتنا رس
چھوڈا کہ اتنا پہلے
کبھی نہیں چھوڑا تھا ۔ میں لذت کے خمار سے مدہوش سی
ہوگئی ۔سمیر میری پھدی
کا رس پینے میں لگا ہوا تھا ۔ نا جانے کتنی دیر بعد میں
نے محسوس کیا سمیر مجھ
پر چھایا میرے لب چوم رہا ہے میں نے اپنے ہونٹ
کھول دئیے تو اس نے
اپنی زبان میرے منہ میں دے دی ۔ اسے چوستے ہوئے
مجھے اپنی چوت کے رس
کاسواد اچھا لگنے لگا ۔ میں زبان چوستی رہی ادھر
سمیر کا لن میری پھدی
پر دستک دیتا محسوس ہوا تو میں نے اپنی ٹانگیں اور
کھول دیں تاکہ وہ آسانی
سے اندر آسکے ۔ سمیر نے ایک تکیہ میرے چوتڑوں
کے نیچے رکھا جس سے
میری چوت اس کے لن کی ڈائریکشن میں آگئی میں
نے ہاتھ میں لن کو پکڑ
کر اپنی چوت کی لیکر پر مسلہ تو سمیر نے تھوڑا سا
دھکا لگاکر ٹوپا چوت کے
اندر کردیا ۔ لذت کی ایک لہر ابھری اور میں نے
نیچے سے چوتڑوں کو اوپر
کی طرف پش کیا تو سمیرنے ایک زوردار جھٹکا
لگا کر سارا لن جڑوں تک
میری پھدی میں اتاردیا ۔ میرے لبوں سے بے اختیار
آہ نکلی تو سمیر وہیں
رک گیا ۔ میں سمیر کو اپنے اوپر جھکا کر اسکے
ہونٹوں پر اپنی چوت کا
رس چاٹنے لگی ۔ سمیر کے ہاتھ میرے مموں سے
کھیلنے لگے ۔ گرم
سانسوں اور لذت بھری سسکاریوں میں سمیر نے اپنا چپو
چلانا شروع کردیا ۔ میں
نیچے سے اسکے ہر جھٹکے کوجواب دیتی اور مزہ
لیتی میرے منہ سے عجیب
عجیب آوازیں نکلتیں رہیں. سمیر کے جھٹکوں کی
شدت اسکی چوت سے دور
رہنے اور ترسنے کی گواہ تھی. میں خود اس
عرصہ میں اسکے لمس اور
لن کے لئے بےتاب تھی ۔ اسکا ہر جھٹکا اور دھکا
میری حسرتوں کو پورا
کرنے میں معاون بن رہا تھا ۔ سمیر کے کانوں میں
سرگوشیاں کرتی اور اسے
اور زیادہ چوٹ مارنے کے لئے اکساتی ۔۔ جانی ذرا
اور ہٹ کے لگا مجھے ۔ ۔
اور زور سے سمیر اور زور سے ۔۔۔۔۔ تمہیں مجھ
سے پیار ہے تو میرا
لحاظ کئے بغیر مجھے چود ڈال ۔۔۔۔۔۔ جانی میری پھدی
ایسے مار جیسے تمہیں
آخری چانس ملا ہو۔۔ نا جانے میں کیا کیا اول فول
بکتی رہی اور سمیر جوش
میں آکر میری چوت کے بخیے ادھیڑنے لگا ۔اسکا
ایک ایک دھکا میرا اندر
باہر ہلارہا تھا اور میں خوشی اور لذت سے سرشار
وہ برداشت کررہی تھی
کیونکہ میرا جانی میرا سمیر مجھے چود کر لذت میں
ڈوبتا جارہا تھا ۔ اسکے
سانس بے ترتیب ہونے لگے تھے. اسکے ہاتھوں کی
انگلیاں میرے پورے جسم
کو سہلانے لگی ہوئی تھیں ۔ اور پھر اس نے میری
ٹانگیں اپنے شانوں پر
رکھ لیں میرے گھٹنے میرے مموں پر آٹکے ۔ سمیر
پوری شدت اور زور سے
دھکے لگانے لگا میں مزہ لیتے ہوئے اہنے سمیر
کے لئے خوش تھی کہ اس
سواد آرہا ہے. آج سے پہلے سمیر نے ایسی
زبردست چدائی نہ کی تھی
مگر آج اس نے کوئی کسر نہ چھوڈی تھی.
وہ واقعی سہاگ رات کو
یاد گار بناکر رہا ۔ میں بھی یہی چاہتی تھی کہ اسے
ایسی لذت دوں کہ اسے
پھر اسی پھدی کی خواہش شدید تر ہو ۔ ہمارے سانسوں
کی بے ترتیب آوازوں ۔
لذت بھری سسکاریوں اور آہوں نے کمرے میں گونجتے
ہوئے ہمیں اور پرجوش
کردیا ۔ میں تو کب کی فارغ ہوچکی تھی اور پھر سے
لاوا ابلنے کو تھا ۔
میں سمیر کو چومتی اور اسکی پیٹھ پر ہاتھ پھیرتی رہی ۔ پھر
نجانے کیا ہوا سمیر کے
دھکوں نے ایک طوفانی صورت اختیار کرلی ایسا لگتا
تھا وہ اپنے ہوش وحواس
میں نہیں ۔ اسکی دیوانگی میں آخری جھٹکوں کا سواد
میں کبھی نہیں
بھلاسکونگی ۔ انہی جھٹکوں میں سمیر کے لن نے مجھے
بھردیا اور وہ ہانپتے
ہوئےمجھ پر گرا تو میں تو میں نے بمشکل اس کے شانوں
سے اپنی ٹانگیں اتارکر
اس کی پیٹھ کے گرد کیں اور اسے بے تحاشا چومنے
لگی اسکے پسینہ کی مہک
نے پورے کمرے کی فضا کو معطر کردیا تھا ۔ میں
سمیر کی پیٹھ پر ہاتھ
پھیرتی اور باربار اسے اپنے ساتھ بھینچتی رہی تھوڑی
دیر یونہی رہنے کے بعد
سمیر کا لن میری چوت سے پھسل کر نکل گیا تو سمیر
میرے پہلو میں آکر لیٹ
گیا وہ سیدھا لیٹا ہوا مجھے بہت پیارا لگ رہا تھا ۔ میں
اسے چومنے لگی اور اسکے
سینے کے بالوں سے کھیلنے لگی. اس کا سینہ
بہت تیزی سے اوپر نیچے
ہورہا تھا جس سے اسکے نھنھےنھنھے نپلز اور بھی
حسیں لگ رہے تھے ۔سمیر
نے میرا سر اپنے بازو پر رکھا اور میرے سر میں
انگلیوں سے کنگھی کرنے
لگا ۔ میں کچھ دیر کے لئے اس کے ممیں کچھ دیر کے لئے اس کے مضبوط بازوؤں
پر اونگھ گئی ۔ جب سمیر
نے میری گردن پر ہونٹ رکھے تو میری آنکھ کھلی
اور میں سمیر سےلپٹ گئی
اور اسکے ہونٹوں پر انگلی پھیرتے ہوئے کہا آئی لو
یو سمیر ۔ ۔۔۔۔ اس نے
آئی لو یو ٹو کہتے ہوئے مجھے اپنے ساتھ زور سے لپٹالیا
۔۔۔
اور پھر اس رات ہم نے تین 3 بار پیار محبت کا کھیل کھیلا ۔ ہماری پوری
رات رتجگے میں گزرگئی ۔
ہم دونوں خوش تھے کہ اب ہم ہمیشہ کے لیے ایک
ہوچکے ہیں ۔ ہماری دلی
مرادیں پوری ہوچکی تھیں ۔
اس وقت اریبہ کی عمر 19 سال ہے جبکہ انیلا کے سمیر دو بیٹے ہیں
The End
دوستو! کہانی کے بارے کمنٹس بھی کیا کریں
جواب دیںحذف کریں